ه
طٰہٰ (یعنی اے شخص مخاطب)
بالاتفاق یہ سورت سورۃ مریم کے بعد نازل ہوئی ہے اور مکی عہد کی وسطی تنزیلات میں سے ہے۔ یہ زمانہ تاریخ دعوت کا سب سے زیادہ پر آشوب زمانہ تھا، انکار و جحود کا ہر طرف سے ہجو تھا اور قبولیت کی رفتار بہ ہی دھیمی اور محدود تھی۔ قدرتی طور پر یہ صورت حال پیغمبر اسلام پر گراں گزرتی تھی۔ جو دل تمام نوع انسانی کی ہدایت کے لیے پھنک رہا تھا وہ اپنے قریبی بنائے وطن کو بھی قبولیت کے لیے آمادہ نہ پاتا تھا، کون ہے جو اس غم و اضطراب کا اندازہ کرسکتا ہے جس کی مقدس آگ آپ کے قلب مبارک میں سلگ رہی ہوگی؟ یہی وجہ ہے کہ اس عہد کی تمام تنزیلات تسکین و تشفی کی روح سے معمور ہیں اور یہی روح اس سورت میں بھی بول رہی ہے۔ خطاب براہ راست آپ سے ہے اور بالواسطہ آپ کے ساتھیوں سے۔ فرمایا قرآن اس لیے نازل نہیں ہوا ہے کہ تم اپنے کو رنج و محنت میں ڈالو، وہ تو نصیحت کی بات ہے، جو مستعد ہیں قبول کریں گے۔ جنہوں نے استعداد کھودی وہ سننے والے نہیں۔ اور نتیجہ کا ظہور اپنے وقت پر ہوگا۔