كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
لڑائی کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے لیکن بہت ممکن ہے ایک بات کو تم ناگوار سمجھتے ہو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور ایک بات تمہیں اچھی لگتی ہو اور اسی میں تمہارے لیے برائی ہو۔ اللہ جانتا ہے مگر تم نہیں جانتے۔
دفاع کا حکم یعنی دین کے اعتقاد و عمل کی آزادی کے لیے لڑنے کا حکم : جنگ کی حالت کوئی ایسی حالت نہیں ہے جو تمہارے لیے خوشگوار ہو۔ لیکن اس دنیا میں کتنی ہی خوشگواریاں ہیں جو ناگواریوں سے پیدا ہوتی ہیں۔ اور کتنی ہی خوشگوار باتیں ہیں جن کا نتیجہ ناگوار ہوتا ہے۔ جنگ برائی ہے لیکن انسانی طاقت کا ظلم و فساد اس سے بھی بڑھ کر برائی ہے۔ پس جب ایسی حالت پیش آجائے کہ ظلم کا ازالہ اور کسی طرح ممکن نہ ہو تو جنگ کے سوا چارہ نہیں دشمنوں کی مخالفت کسی خاص فرد یا جماعت سے نہ تھی بلکہ اس بنا پر تھی کہ لوگ اپنے پچھلے عقائد چھوڑ کر کیوں ایک نیا اعتقاد اختیار کر رہے ہیں؟ یعنی محض اختلاف عقائد کی بنا پر وہ ایک جماعت کو نیست و نابود کردینا چاہتے تھے۔ پس جب تک مسلمان اپنے اعتقاد سے دست بردار نہ ہوجاتے، دشمنوں کی طرف سے قتل و غارت گری کا سلسلہ برابر جاری رہتا اور جب مسلمان اس کے لیے تیار نہ تھے تو پھر اس کے سوا کیا چارہ کار تھا کہ مردانہ وار لڑیں اور حق و باطل کا فیصلہ ہوجائے؟ قرآن نے جنگ کا قدم نہیں اٹھایا اور نہ وہ داعی امن ہو کر اٹھا سکتا تھا، لیکن اس کے خلاف اٹھایا گیا اور اس نے پیٹھ نہیں دکھلائی۔