سورة الإسراء - آیت 60

وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ ۚ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ ۚ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَانًا كَبِيرًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغبر ! وہ وقت یاد کرو) جب تیرے پروردگار نے تجھ سے کہا تھا یقین کر، تیرے پروردگار نے لوگوں کو گھیرے میں لے لیا ہے (یعنی اب وہ دعوت حق کے دائرے سے باہر نکل سکتے) اور رویا جو ہم نے تجھے دکھائی تو اسی لیے دکھائی کہ لوگوں کے لیے ایک آزمائش ہو، اسی طرح اس درخت کا ذکر جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے، ہم انہیں (طرح طرح سے) ڈراتے ہیں لیکن ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا، پڑتا ہے تو صرف یہی کہ اپنی سرکشیوں میں اور زیادہ بڑھتے جاتے ہیں۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اس کے بعد آیت (٦٠) میں دو باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے : اسری کا واقعہ اور اس درخت کا معاملہ جس کا قرآن میں ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی (ان شجرۃ الزقوم طعام الاثیم) جہنم میں تھوہر کا درخت مجرموں کی غذا ہوگی۔ منکروں نے ان دونوں باتوں کی ہنسی اڑائی تھی، جیسا کہ روایات صحیحہ سے ثابت ہے۔ اسری کا معاملہ جب بیان کیا گیا تو کہنے لگے یہ جنون کی انتہا ہے اور جہنم کے اہوال و شدائد کی جب آیتیں سنائی گئیں تو کہنے لگے، جہنم بھی عجیب جگہ ہوئی ہے جہاں آگ کے شعلوں میں درخت پیدا ہوں گے۔ فرمایا ان دونوں باتوں میں ان لوگوں کے لیے آزمائش ہوئی۔ اگر طالب حق ہوتے تو ہنسی اڑانے کی جگہ عقل و بصیرت سے کام لتیے۔