وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُورًا
(اے پیغمبر) جب تو قرآن پڑھتا ہے تو ہم تجھ میں اور ان لوگوں میں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے ایک پوشیدہ پردہ حائل کردیتے ہیں (یعنی ہمارا ٹھہرایا ہوا قانون یہ ہے کہ ایسے لوگوں میں اور صدائے حق میں ایک پردہ سا حائل ہوجاتا ہے)
پچھلی آیت میں منکرین حق کی یہ حالت بیان کی تھی کہ (لا تفقھون تسبیحھم) اب آیت (٤٥) میں فرمایا : یہی حال ان کا قرآن کے بارے میں ہے کہ اس کی طرف رخ نہیں کرتے، اسے سننا نہیں چاہتے، اسے سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ اللہ کا مقررہ قانون یہ ہے کہ اگر تم آنکھیں نہیں کھولو گے تو تمہارے آگے ایک سیاہ پردہ حائل ہوجائے گا۔ اگر تم سننا نہیں چاہو گے تو تمہارے کان بہروں کے کان ہوجائیں گے، اگر تم سوچنے سے انکار کردو گے، تو تمہاری عقل پر پردے پڑجائیں گے۔ اس کی روشنی کام ہیں دے سکے گی۔ قرآن نے انکار و اعراض کی یہ حالت جابجا بتلائی ہے، اور یہاں بھی اس طرف اشارہ کیا ہے۔ منکروں کی یہ حالت خود انہی کی پسند کی ہوئی حالت تھی۔ یہ قانون اللہ کا ٹھہرایا ہوا ہے کہ نہ دیکھنے ولے کی آنکھوں پر پردہ پڑجاتا ہے لیکن اسی وقت پڑتا ہے جب دیکھنے والا دیکھنے سے انکار کردیتا ہے۔ یہاں تین باتیں بیان کی گئی ہیں۔ آنکھوں کے آگے حجاز، کانوں میں گرانی اور عقل پر تہ در تہ غلافوں کا چڑھ جانا۔ لیکن یہ وہی تین حالتیں ہیں جو خود منکروں نے اپنے لیے پسند کرلی تھیں : (وقالوا قلوبنا فی اکنۃ مما تدعونا الیہ وفی اذاننا وقر ومن بیننا وبینک حجاب) (حجابا مستورا) یعنی ایسا پردہ حال تو ہوجاتا ہے مگر دکھائی نہیں دیکھا۔ اور دکھائی دے کس طرح؟ وہ لکڑی کا یا اینٹوں کا پردہ تو ہوتا نہیں۔ وہ تو اعراض و غفلت کا پردہ ہوتا ہے جسے تمہاری ظاہر بیں نگاہیں پا نہیں سکتیں۔ قرآن حکیم نے جابجا نشاۃ اولی سے نشاۃ ثانیہ پر استدلال کیا ہے۔ یعنی جس خالق و قدیر نے تمہیں پہلی مرتبہ زندگی دی کیا وہ تمہیں دوبارہ زندگی نہیں دے سکتا؟ پھر اس پر اچنبھا کیوں ہو؟