ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
پھر (یہ بات بھی ضروری ہے کہ) جس جگہ (تک جا کر) لوگ انبوہ در لوٹتے ہیں تم (اہل مکہ) سے بھی وہیں سے لوٹو اور اللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرو۔ بلاشبہ اللہ (خطائیں) بخشنے والا اور (ہرحال مٰں) رحمت رکھنے والا ہے
حج کے اعمال میں سے ایک عمل عرفات جا کر ٹھہرنا اور وہاں سے لوٹنا ہے لیکن باشندگان مکہ نے یہ طریقہ اختیار کرلیا تھا کہ حدود حرم تک جا کر لوٹ آتے اور کہتے ہم تو اسی مقام کے باشندے ہیں۔ ہمارے لیے حدود حرم سے باہر جانا ضروری نہیں۔ یہ کچھ تو اس لیے تھا کہ باشندہ مکہ ہونے کا غرور باطل تھا۔ اور زیادہ تر اس لیے کہ دنیوی کاروبار کے انہماک سے اعمال حج کی مشغولیت ان پر شاق گزرتی تھی۔ چاہتے تھے کہ باہر کے حاجی حج میں مشول رہیں۔ ہم موسم سے تجارت کا فائدہ اٹھائیں۔