سورة الإسراء - آیت 11

وَيَدْعُ الْإِنسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ ۖ وَكَانَ الْإِنسَانُ عَجُولًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) جس طرح انسان اپنے لیے بھلائی کی دعائیں مانگتا ہے، اسی طرح (بسا اوقات) برائی بھی مانگنے لگتا ہے (اگرچہ نہیں جانتا کہ یہ اس کے لیے برائی ہے) اور حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی جلد باز ہے۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (١١) میں انسان کی اس کمزوری کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ خیر و شر میں امتیاز نہیں کرتا اور بسا اوقات شر کا اس طرح طالب ہوجاتا ہے جس طرح اسے خیر کا خواستگار ہونا چاہیے۔ یہ حالت اسے کیوں پیش آتی ہے؟ اس لیے کہ اس کی طبیعت میں جلد بازی ہے یعنی ایسی خواہشیں ہیں جو فورا پورا ہونا چاہتی ہیں اور جب چھا جاتی ہیں تو ایک لمحہ کے لیے بھی صبر و انتظار نہیں کرسکتیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اچھائی کی طلبگاری کرتے ہوئے برائیوں کا طلبگار ہوجاتا ہے اور نہیں جانتا کہ اس کی طلبگاری اسے برائیوں کی طرف لے جارہی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ اسے ایسی رہنمائی کی ضرورت ہے جو خیر و شر کا امتیاز سکھلائے اور خواہشوں کی ٹھوکروں سے اس کی حفاظت کرے۔ یہی رہنمائی ہدیات وحی کی رہنمائی ہوئی اور اسی لیے انسان کسی ایسی رہنمائی کا بالطبع محتاج ہوا۔