سورة النحل - آیت 90

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(مسلمانو) اللہ حکم دیتا ہے کہ (ہر معاملہ میں) انصاف کرو، (سب کے ساتھ) بھلائی کرو اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرو، اور تمہیں روکتا ہے (کن باتوں سے؟) بے حیائی کی باتوں سے، ہر طرح کی برائیوں سے اور ظلم و زیادتی کے کاموں سے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ (سمجھو اور) نصیحت پکڑو۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

عدل تمام محاسن اعمال کی اصل ہے، جس انسان کے اندر یہ بات پیدا ہوگئی کہ جو بات کرنی چاہیے انصاف کے ساتھ کرنی چاہیے اس نے سب کچھ پالیا، احسان سے یہاں مقصود حسن عمل ہے، جو بات کرو، حسن و خوبی کی کرو، نیکی وار بھلائی کی کرو، یعنی بنیاد و عمل بھلائی ہو۔ برائی نہ ہو۔ جس نے یہ بات پالی اس کے لیے اور کیا باقی رہا؟ پھر جو ہم سے قریب کا رشتہ رکھتے ہیں وہ ہمارے حسن سلوک کے زیادہ حقدار ہیں اس لیے وایتای ذی القربی کی رعایت بھی ضروری ہوئی اور اس حکم پر اوامر کا معاملہ پورا ہوگیا، پھر فحشاء منکر اور بغی سے روک کر نواہی کے سارے مقاصد پورے کردیے، فحش سے مقصود وہ برائیاں ہیں جو حد درجہ کی برائیاں تسلیم کرلی گئی ہیں۔ مثلا زنا، کنجوسی، افترا پردازی، منکر میں ہر طرح اور ہر قسم و درجہ کی برائیاں آگئیں، بغی میں ہر طرح زیادتی آگئی، کسی گوشہ اور شکل میں کی گئی ہو۔ جو کتاب ایسے سانچے لے کرآئی ہو جس سے ایسے اعمال ڈھلتے ہوں جو ایسی زندگیاں بناتی ہو، اگر ہو ہدایت، رحمت اور بشارت نہیں ہے تو اور کس نام سے سے پکارا جاسکتا ہے ؟