يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے پیغمبر لوگ تم سے (مہینوں کی) چاند رات کی بابت دریافت کرتے ہیں۔ ان لوگوں سے ہہ دو یہ انسان کے لیے وقت کا حساب ہے اور اس سے حج کے مہینے کا تعین ہوجاتا ہے (باقی جس قدر توہمات لوگوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور طرح طرح کی رسمیں اختیار کر رکھی ہیں تو ان کی کوئی اصلیت نہیں) اور یہ کوئی نیکی کی بات نہیں ہے کہ اپنے گھروں میں (دروازہ چھوڑ کر) پچھواڑے سے داخل ہو) جیسا کہ عرب کی رسم تھی کہ حج کے مہینے کا چاند دیکھ لیتے اور احرام باندھ لینے کے بعد اگر گھروں میں داخل ہونا چاہتے تو دروازے سے داخل نہ ہوتے، پچھواڑے سے راہ نکال کر جاتے) نیکی تو اس کے لیے ہے جس نے اپنے اندر تقوی پیدا کیا۔ پس (ان وہم پرستیوں میں مبتلا نہ ہو) گھروں میں آؤ تو دروازے ہی کی راہ آؤ۔ (پچھواڑے سے راہ نکالنے کی مصیبت میں کیوں پڑو) البتہ اللہ کی نافرمانی سے بچو تاکہ (طلب سعادت میں) کامیاب ہو
حج کے احکام کے اور اس سلسلہ میں دین حق کی بعض اصولی ہدایتیں اور اہل عرب اور دیگر اقوام کی گمراہیوں کا ازالہ : چاند کے طلوع و غروب سے مہینوں کا حساب لگا لیا جاتا ہے اور حج کے موسم کا تعین اسی حساب سے کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جو وہم پرستانہ خیالات لوگوں میں پھیلے ہوئے ہیں خواہ ان کا تعلق کو کب پرستی سے ہو یا نجوم کے عقائد سے، ان کی کوئی اصلیت نہیں۔ مقدس زیادرت گاہوں اور تیرتھوں پر جانے کے لیے لوگوں نے طرح طرح کی پابندیاں لگا لی ہیں اور اجر و ثواب کے لیے اپنے آپ کو تکلیفوں مشقتوں میں ڈالتے ہیں، لیکن یہ سب گمراہی کی باتیں ہیں۔ نیکی کی اصلی راہ یہ ہے کہ اپنے اندر تقوی پیدا کرو۔