خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ
اس نے انسان کو نطفہ (کے ایک قطرہ) سے پیدا کیا، پھر دیکھو وہ ایک جھگڑنے والا اور ابھرنے والا وجود ہوگیا۔
آیت (٤) میں قدرت الہی کی اس کرشمہ سازی پر توجہ دلائی ہے کہ نطفہ کے ایک قطرہ حقیر سے ایک ایسا عقیل و مفکر وجود پیدا ہوجاتا ہے جس میں بحث و نزاع کی قوت ہوتی ہے اور جو بال کی کھال اتارنے لگتا ہے۔ پس یہاں فاذا ھو خصیم مبین سے مقصود بیان واقعہ ہے نہ کہ مذمت وملامت جیسا کہ بعض دوسرے مقامات میں ہے۔ پہلے تخلیق بالحق کی حقیقت پر توجہ دلائی کہ کارخانہ ہستی کی ہر چیز کسی سوچی سمجھی ہوئی مصلحت سے بنائی گئی ہے۔ بے کار و عبث نہیں نبی ہے۔ اس کے بعد فرمایا۔ انسان خود اپنی خود اپنی ہستی کو دیکھے اور اپنے چاروں طرف نظر ڈالے، کس طرح ہر شے بول رہی ہے کہ مجھے کسی رب و رحیم ہستی نے بنایا ہے جو پرورش کرنا چاہتی ہے، فائدہ پہنچانا چاہتی ہے، ساری احتیاجیں اور ضرورتیں پوری کر رہی ہے اور سرتاسر بخشش، فضل احسان اور رحمت ہے؟ پھر ایک ایسی ربوبیت و رحمت رکھنے والی ہستی موجود ہے تو ہر طرح کی پرستاریوں کا مستحق اسے ہونا چاہیے یا انہیں جو خود اپنی پرورش کے لیے اس کے پروردگاری کے محتاج ہیں؟ اور اگر وہ پروردگار ہستی تمہاری تمام جسمانی ضرورتوں اور آسائشوں کا انتظام کر رہی ہے تو کیا ضروری نہ تھا کہ تمہاری روحانی سعادت و زدنگی کا بھی سرور سامان کردیتی؟ یہی سروسامان ہے جو ہدایت وحی اور تسیل رسل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ پھر کیوں تمہیں اس پر انکار و تعجب ہو؟