لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ
نیکی اور بھلائی (کی راہ) یہ نہیں ہے کہ تم نے (عبادت کے وقت) اپنا منہ پورب کی طرف پھیر لیا یا پچھم کی طرف کرلیا ( یا اسی طرح کی کوئی دوسرت بات رسم ریت کی کرلی) نیکی کی راہ تو ان لوگوں کی راہ ہے جو اللہ پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر،، آسمانی کتابوں پر اور خدا کے تمام نبیوں پر ایمان لاتے ہیں۔ خدا کی محبت کی راہ میں اپنا مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں کو دیتے ہیں اور غلاموں کو آزاد کرانے کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں۔ زکوۃ ادا کرتے ہیں۔ اپنی بات کے پکے ہوتے ہیں۔ جب قول و قرار کرلیتے ہیں تو اسے پورا کرکے رہتے ہیں۔ تنگی و مصیبت کی گھڑی ہو یا خوف و ہراس کا وقت ہر حال میں صبر کرنے والے (اور اپنی راہ میں ثابت قدم) ہوتے ہیں۔ تو بلاشبہ ایسے ہی لوگ ہیں جو نیکی کی راہ میں سچے ہوئے اور یہی ہیں جو برائیوں سے بچنے والے انسان ہیں
دین حق کی اس اصل عطیم کا اعلان کہ سعادت و نجات کی راہ یہ نہیں ہے کہ عبادت کی کوئی خاص شکل یا کھانے پینے کی کوئی خاص پابندی یا اسی طرح کی کوئی دوسری بات اختیار کرلی جائے۔ بلکہ وہ سچی خدا پرستی اور نیک عملی کی زندگی سے حاصل ہوتی ہے اور اصلی شے دل کی پاکی اور عمل کی نیکی ہے۔ شریعت کے ظاہری احکام و رسوم بھی اسی لیے ہیں تاکہ یہ مقصود حاصل ہو۔ نزول قرآن کے وقت دنیا کی عالمگیر مذہبی گمراہی یہ تھی کہ لوگ سمجھتے تھے دین سے مقصود محض شریعت کے ظواہر و رسوم ہیں۔ اور انہی کے کرنے نہ کرنے پر انسان کی نجات و سعادت موقوف ہے۔ لیکن قرآن کہتا ہے اصل دین خدا پرستی اور نیک عملی ہے اور شریعت کے ظاہر رسوم و اعمال بھی اسی لیے ہیں کہ یہ مقصود حاصل ہو۔ پس جہاں تک دین کا تعلق ہے ساری طلب مقاصد کی وہنی چاہیے نہ کہ وسائل کی۔