وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۚ وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ
غرض کہ تمہیں (اپنی زندگی کی کاربراریوں اور کامرانیوں کے لیے) جو کچھ مطلب تھا اس نے عطا فرما دیا۔ اگر تم اللہ کی نعمتیں گننی چاہو تو وہ اتنی ہیں کہ کبھی ان کا احاطہ نہ کرسکو۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی ناانصاف بڑا ہی ناشکرا ہے۔
اس مقام میں (اتکم من کل ماسالتموہ وان تعدوا نعمت اللہ لا تحصوھا) کہہ کر جس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ نہایت اہم اور تشریح طلب ہے، تشریح اس کی سورۃ فاتحہ میں ملے گی۔ پچھلی آیت میں انسان کی اس غفلت کا ذکر کیا تھا کہ وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر گزار نہیں، اور یہی گمراہی اس کی تمام محرومیوں کا سرچشمہ ہے : (ان الانسان لظلوم کفار) اب آیت (٣٥) میں اس ناشکری کی ایک مناسب مقام مثال بیان کردی، فرمایا اس سے بڑھ کر ناشکری اور کیا ہوسکتی ہے کہ جو قریش مکہ نے کی ہے ؟ وہ دنیا کے ایک ایسے گوشہ میں سکونت رکھتے ہیں جو انسانی آبادی کے لیے زیادہ سے زیادہ ناموزوں مقام تھا۔ کہ ایک بے آب و گیاہ ریگستان، جہاں درندے بھی بھٹ نہ بنائیں اور پرند بھی ہوا میں اڑنا پسند نہ کریں، لیکن اللہ نے اپنے فضل و کرم سے اسے ایسا دلچسپ اور معمور مقام بنادیا کہ انسانی گروہوں کے دل بے اختیار اس کی طرف کھنچنے لگے اور زمین کی ساری پیداواریں جو کسی سرسبز و شاداب ملک میں مل سکتی ہیں اس بنجر زمین میں مہیا ہوگئیں، یہ انقلاب حال کیونکر ظہور میں آیا؟ اس طرح کہ حضرت ابراہیم نے یہاں دین حق کی عبادت گاہ بنائی اور اس کی پاشبانی اپنی اولاد کے سپرد کی۔ انہوں نے دعا مانگی تھی کہ خدایا ! اس ویرانے کو اباد کردیجیو، چنانچہ ان کی دعا مقبول ہوئی اور یہ ویرانہ سا طرح آباد ہوگیا کہ تمام عرب و اطراف عرب کے سالانہ اجتماع کا مرکز بن گیا۔ روسائے قریش انہی کی نسل سے ہیں ور انہی کی برکتوں کا ظہور ہیں لیکن انہوں نے اس نعمت کا حق کس طرح ادا کیاَ ؟ یوں ادا کیا کہ ملت ابراہیمی سے منحرف ہوگئے، ظلم و گمراہی کو اپنا شیوہ بنا لیا وہ دین حق جس کے قیام کے لیے یہ عبادت گاہ بنائی گئی تھی اصنام پرستی سے بدل گیا اور اب اپنی تمام طاقتیں اس دعوت کی مخالفت میں خرچ کر رہے ہیں جو اسی ملت ابراہیمی کی تجدید ہے۔