سورة الرعد - آیت 5

وَإِن تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ أَإِذَا كُنَّا تُرَابًا أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے مخاطب) اگر تو عجیب بات دیکھنی چاہتا ہے تو (سب سے زیادہ) عجیب بات ان منکروں کا یہ قول ہے کہ جب ہم (مرنے کے بعد گل سڑ کر) مٹی ہوگئے تو پھر کیا ہم پر ایک نئی پیدائش طاری ہوگی؟ (یہ بات تو سمجھ میں آتی نہیں) تو یقین کرو یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار سے انکار کیا اور یہی ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوں گے اور یہی ہیں کہ دوزخی ہوئے ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (٥) میں فرمایا کائنات ہستی کی ہر بات یقین دلارہی ہے کہ یہ کارخانہ تدبیر و حکمت بغیر کسی مصلحت و مقصد کے نہیں ہوسکتا اور ضروری ہے کہ انسان کی زندگی صرف اتنی ہی نہ ہو کہ پیدا ہو، کھایا پیا اور فنا ہوگیا بلکہ اس کے بعد بھی کچھ نہ کچھ ہونے والا ہو، ورنہ تدبیر و مصلحت کا سارا کارخانہ باطل ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر اس پر بھی لوگوں کی غفلت کا یہ حال ہے کہ حیات آخڑت کی بات ان کی سمجھ میں نہیں ٓٓتی تو اس سے زیادہ کون سی بات عجب ہوسکتی ہے ؟ عجب بات یہ نہیں ہے کہ مرنے کے بعد پھر انسان پر ایک دوسری زندگی طاری ہوگی کیونکہ اس کی شہادت تو دنیا کی ہر چیز دے رہی ہے، عجب بات یہ ہے کہ انسان صرف حیات دنیوی پر قانع و مطمئن ہوجائے اور سمجھ لے اس کی پیدائش سے جو کچھ مقصود تھا وہ صرف اتنا ہی تھا کہ ایک مرتبہ پیدا ہوا اور کچھ دنوں کھا پی کر مرگیا۔ عقل و بینش کا مقتضا تو یہ تھا کہ اگر کہا جاتا، یہ زندگی صرف دنیا ہی کی زندگی ہے تو طبعیتیں کس طرح مطمئن نہ ہوتیں اور شک و شبہ میں پڑجاتیں کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے ؟ لیکن منکرین حشر کی عقل و بینش کا یہ حال ہے کہ انہیں کہا جارہا ہے زندگی صرف اتنی ہی نہیں اور وہ ہیں کہ حیران ہو کر کہتے ہیں۔ جب مرگئے اور گل سڑ کر مٹی ہوگئے تو کیا پھر ہمیں زندگی کا ایک نیا جامہ مل جائے گا؟