وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ
میں اپنے نفس کی پاکی کا دعوی نہیں کرتی، آدمی کا نفس تو برائی کے لئیے بڑا ہی ابھارنے والا ہے (اس کے غلبہ سے بچنا آسان نہیں) مگر ہاں اسی حال میں کہ میرا پروردگار رحم کرے، بلاشبہ میرا پروردگار بڑا ہی بخشنے والا بڑا ہی رحم کرنے والا ہے۔
اس سلسلہ میں انہوں نے عزیز کی بیوی کی جگہ ان عورتوں کا ذکر کیوں کیا جنہوں نے مکاری سے ہاتھ کاٹ لیے تھے ؟ اس لیے کہ : (ا) قید کے معاملہ میں ان عورتوں کا بھی ہاتھ تھا، انہوں نے اپنی ناکامیابی کی ذلت مٹانے کے لیے جھوٹے الزام تراش لیے ہوں گے، یہی وجہ ہے کہ قید کا معاملہ ان کے معاملہ کے بعد ظہور میں آیا۔ (ب) عزیز کی بیوی نے ان سب کے سامنے ان کی بے گناہی اور اپنی طلب و سعی کا اعتراف کیا تھا جیسا کہ آیت (٣٢) میں گزر چکا ہے، پس یہ سب اس بات کی گواہ تھیں کہ عزیز کی بیوی کے معاملہ میں ان کا دامن بے داغ ہے۔ (ج) ان سب کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا تھا خود اس سے بھی عزیز کی بیوی کا الزام بے اصل ثابت ہوتا تھا کیونکہ جس شخص کی پاکی طبع کا یہ حال ہو کہ ان تمام فتنہ گران شہر اور خوب رویان عہد کا متفقہ اظہار عشق بھی اسے مسخر نہ کرسکا، کیونکر باور کیا جاسکتا ہے کہ ایسا آدمی اپنے آقا کی بیوی پر ہاتھ ڈالے اور ایسی حالت میں ہاتھ ڈالے کہ وہ متنفر اور گریزاں ہو؟ اس معاملہ میں ایک اور دقیق نکتہ بھی ہے۔ آیت (٢٩) میں گزر چکا ہے کہ جب عزیز پر اپنی بیوی کا قصور ثابت ہوگیا تھا تو اس نے کہا تھا (یوسف اعرض عن ھذا) یوسف ! اس بات سے درگزر کر، یعنی جو ہوا سو ہوا۔ اب اس کا چرچا نہ کیجیو، کہ اس میں میری بدنامی ہے، بعد کو اگرچہ عزیز اپنی بات پر نہ رہا اور حضرت یوسف کو قید میں ڈال دیا، لیکن حضرت یوسف کا اخلاق ایسا نہ تھا کہ یہ بات بھول جاتے۔ عزیز نے انہیں غلام کی حیثیت سے خریدا تھا، اور پھر اپنے عزیزوں کی طرح عزت و آرام کے ساتھ رکھا تھا، وہ اس کا یہ احسان نہیں بھول سکتے تھے پس ان کی طبیعت نے گوارا نہیں کیا کہ اس موقع پر اس کی بیوی کا ذکر کر کے اس کے رسوائی کا باعث ہوں، صرف ہاتھ کاٹنے والی عورتوں کا ذکر کردیا کہ ان میں کوئی نہ کوئئی ضرور نکل آئے گی جو سچائی کے اظہار سے باز نہیں رہے گی۔ لیکن عزیز کی بیوی اب وہ عورت نہیں رہی تھی جو چند سال پہلے تھی، اب وہ ہوس کی خام کاریوں سے نکل کر عشق کی پختگی و کمال تک پہنچ چکی تھی۔ اب ممکن نہ تھا کہ اپنی رسوائی کے خیال سے اپنے محبوب کے سر الٹا الزام لگائے۔ جب عورتوں نے یوسف کی پاکی کا اقرار کیا۔ تو اس نے بھی خود بخود اعلان کردیا، سارا قصور میرا تھا، وہ بے جرم اور راست باز ہے۔