وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ۚ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ
اور (پھر ایسا ہوا کہ) جس عورت کے گھر میں یوسف رہتا تھا (یعنی عزیز کی بیوی) وہ اس پر (ریجھ گئی اور) ڈورے ڈالنے لگی کہ بے قابو ہو کر بات مان جائے۔ اس نے (ایک دن) دوروازے بند کردیے اور بولی لو آؤ، یوسف نے کہا معاذ اللہ ! (مجھ سے ایسی بات کبھی نہیں ہوسکتی) تیرا شوہر میرا آقا ہے، اس نے مجھے عزت کے ساتھ (گھر میں) جگہ دی ہے ( میں اس کی امانت میں خیانت نہیں کروں گا) اور حد سے گزرنے والے کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔
آیت (٢٣) سے اس واقعہ کا بیان شروع ہوتا ہے جو حضرت یوسف کی زندگی کا سب سے زیادہ عظیم واقعہ ہے۔ تشریح اس کی آخری نوٹ میں ملے گی۔ تورات میں ہے کہ یوسف خوبصورت اور نور پیکر تھے۔ (پیدائش : ٦: ٣٩) پس جب جوانی کو پہنچے تو اس کی بیوی ان پر فریفتہ ہوگئی اور جب دیکھا دوسری طرف سے جواب نہیں ملتا تو جیسا کہ قاعدہ ہے ملتفت کرنے کے لیے طرح طرح کی تدبیریں کام میں لائی، پھر جب اس پر بھی وہ نہ پھسلے تو ایک دن جوش فریفتگی میں وہ بات کر بیٹھی جو اس معاملہ کی انتہائی حد ہے۔ یعنی ہر طرح کے موانع جو کسی انسان کو ضبط نفس پر مجبور کرسکتے ہیں راہ سے دور کردیے، اور کھلے لفظوں میں طالب و مصر ہوئی۔ غور کرو، آیت کے ابتدائی جملہ نے ان ساری باتوں کی طرف کس طرح صاف صاف اشارات کردیے ہیں؟ جس شخص نے انکشاف حقیقت کا طریقہ بتلایا اسے شاہد کہا، کیونکہ اس نے کرتا دیکھ کر اصلیت پالی تھی اور حضرت یوسف کی پاکی کی شہادت دی تھی اور پھر ثبوت میں کہا تھا کہ تم خود بھی دیکھ لو، ان کے کرتے کا کیا حال ہے؟ یہ کون شخص تھا؟ خود اس عوت کے عزیزوں میں سے تھا، اس سے زیادہ قرآن نے تصریح نہیں کی، کیونکہ جو بات واضح کرنی تھی وہ صرف یہ تھی کہ حضرت یوسف کی پاکی و راست بازی نے گھر کے تمام افراد کو ان کا معتقد بنا دیا تھا حتی کہ خود عورت کے ایک رشتہ دار نے اپنی رشتہ داری کا لحاظ نہیں کیا، یوسف کی حمایت میں سچائی ظاہر کردی۔ شہر کی ہم درجہ عورتوں میں اس بات کا چرچا ہونا، عورتوں کا بناوٹ اور ریاکاری سے طعن تشنیع کرنا، عزیز کی بیوی کا سننا اور ضیافت کی محفل کا سامان کرنا اور حضرت یوسف کی عصمت و پاکی کا اس آزمائش میں بھی بے داغ نکلنا۔