سورة یوسف - آیت 19

وَجَاءَتْ سَيَّارَةٌ فَأَرْسَلُوا وَارِدَهُمْ فَأَدْلَىٰ دَلْوَهُ ۖ قَالَ يَا بُشْرَىٰ هَٰذَا غُلَامٌ ۚ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَةً ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَعْمَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) ایک قافلہ کا اس پر گزر ہوا (یعنی اس کنویں پر جس میں یوسف کو ڈالا تھا) اور قافلہ والوں نے پانی کے لیے اپنا سقہ بھیجا۔ پھر جونہی اس نے اپنا ڈول لٹکایا (اور یہ سمجھ کر کہ پانی سے بوجھل ہوچکا ہے اوپر کھینچا) تو (کیا دیکھتا ہے ایک جیتا جاگتا لڑکا اس میں بیٹھا ہے، وہ) پکار اٹھا کیا خوشی کی بات ہے یہ تو ایک لڑکا ہے۔ اور (پھر) قافلہ والوں نے اسے اپنا سرمایہ تجارت سمجھ کر چھپا رکھا (کہ کوئی دعویدات نہ نکل آئے) اور وہ جو کچھ کر رہے تھے اللہ کے علم سے پوشیدہ نہ تھا۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ایک عرب قافلہ کا کنویں پر سے گزرنا، حضرت یوسف کا ڈول میں بیٹھ کر نکل آنا اور فروخت ہونا۔ تورات میں ہے کہ قافلہ اسماعیلیوں کا تھا جو گرم مسالے، بلسان اور مر مصر لے جارہا تھا اور اس وقت پہنچا تھا جب یوسف کے بھائی اپنا کام پورا کر کے روٹی کھانے بیٹھے تھے، تب یہودا نے کہا، بہتر ہے ہم یوسف کو ان لوگوں کے ہاتھ بیچ ڈالیں، اس کے مار ڈالنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے بیس سکوں پر بیچ ڈالا۔ (پیدائش : ٢٥: ٣٧) اسماعیلی یعنی حجاز کے عرب جو حضرت اسمایل کی نسل سے تھے۔ اگر یہ معاملہ واقعی پیش آیا تھا تو قرآن نے اسے حذف کردیا کیونکہ ضروری نہ تھا، اور آیت (٢٠) میں وہ واقعہ بیان کردیا جو مصر پہنچنے کا ذریعہ ہوا۔ ڈول کھینچنے والے نے اظہار تعجب کی جگہ اظہار مسرت اس لیے کیا کہ غلامی کا رواج عام تھا اور کم سن اور خوبصورت لڑکا ہاتھ لگ جاتا تو ایک قیمتی متاع سمجھی جاتی اور معقول قیمت وصول ہوجاتی، یہی وجہ ہے کہ فرمایا : (واسروہ بضاعۃ) تورات میں ہے کہ یہ کنواں بیابان میں تھا اور اس میں ایک بوند پانی نہ تھا۔ (پیدائش : ٢٢: ٣٧ و ٢٤) پس حضرت یوسف کنویں میں پڑے رہے، جب قافلہ کے آدمی نے ڈول لٹکایا تو سمجھے شاید کوئی آدمی مجھے نکالنے آیا ہے اور ڈول میں بیٹھ گئے، اس طرح ان کی رہائی کا خود بخود سامان ہوگیا۔ مصر کے ایک سردار کا حضرت یوسف کو خریدنا اور ان کے اخلاق و خصائل سے اس درجہ متاثر ہونا کہ اپنا سب کچھ ان کے سپرد کردینا۔ تورات میں ہے کہ جس مصری نے خریدا تھا اس کا نام فوطی فار تھھا اور وہ فرعون کا ایک امیر اور سردار فوج تھا۔ (پیدائش : ٣٦: ٣٧) قرآن نے بھی آگے چل کر اسے عزیز کہا ہے۔ یعنی ایسا آدمی جو ملک میں بڑی جگہ رکھتا تھا۔ عزیر مصر نے پہلے تو خوبصورت غلام دیکھ کر خرید لیا تھا، لیکن جب تھوڑے ہی دنوں کے اندر اس پر حضرت یوسف کے جوہر کھل گئے تو ان کی راست بازی، نیک عملی اور پاکی نفس سے اس درجہ متاثر ہوا کہ اپنے سارے گھر بار اور علاقہ کا مختار کل بنا دیا۔ تورات میں ہے کہ یوسف کے حسن انتظام سے فوطی فار کی آمدنی دوگنی ہوگئی تھی۔ (پیدائش : ٤: ٣٩) غور کرو قرآن نے یہ سارا معاملہ ایک چھوٹی سی آیت میں بیان کردیا یعنی آیت (٢١) میں۔ عزیز کا اپنی بیوی سے یہ کہنا کہ اسے عزت کے ساتھ گھر میں رکھو اسی طرف اشارہ ہے۔