وَكُلًّا نَّقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ ۚ وَجَاءَكَ فِي هَٰذِهِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَةٌ وَذِكْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ
اور (اے پیغبر) رسولوں کی سرگزشتوں میں سے جو جو قصے ہم تجھے سناتے ہیں (یعنی جن جن اسلوبوں سے ہم سناتے ہیں) تو ان سب میں یہی بات ہے کہ تیرے دل کو تسکین دے دیں، اور پھر ان کے اندر تجے امر حق مل گیا (یعنی سچائی کی دلیلیں مل گئیں) اور موعظت (کہ نصیحت پکڑنے والے نصیحت پکڑیں گے) اور یاد دہانی ہوئی مومنوں کے لیے۔
یہاں آیت (١٢٠) میں واضح کردیا کہ گزشتہ رسولوں کی سرگزشتیں جو مختلف مقامات میں اور مختلف اسلوبوں میں بیان کی گئی ہیں ان سے قرآن کا مقصد کیا ہے : (ا) تاکہ تیرے دل کو تسکین ہو یعنی قوم کو اعراض و سرکشی کی حالت میں دیکھ کر تیرا دل بے قرار ہے، دعوت کا ولولہ اور اصلاح کا عشق تجھے مضطرب رکھتا ہے : (لعلک باخع نفسک الا یکونوا مومنین) تو ان سرگزشتوں کا تفکر موجب تسکین ہوگا کہ تجھ سے پہلے بھی ہمیشہ ایسا ہی ہوا ہے، بلکہ اعراض و سرکشی کے اس سے بھی زیادہ سخت مظاہر ہوچکے ہیں۔ (ب) یہ سرگزشتیں حق کو واضح کردیتی ہیں، یعنی ان میں حقیقت کی دلیلیں اور روشنیاں ہیں، یہ بتلاتی ہیں کہ اس بارے میں اللہ کا ایک مقررہ قانون ہے اور اس میں کبھی تبدیلی ہونے والی نہیں۔ (ج) ان میں موعظت ہے، یعنی ایسی باتیں ہیں جو سننے والوں کو عبرت دلاتی ہیں نصیحت و پند کرتی ہیں غرور و نادانی سے بیدار کردیتی ہیں۔ (د) مومنوں کے لیے تذکیر ہے یعنی سچائی کی یاد دلاتی ہیں غفلت سے روکتی ہیں۔ اوائل حال کی ایک غفلت یہ بھی تھی کہ کمزور بے سروسامان تھے اور تمام ملک دشمنی پر تل گیا تھا۔ اس لیے کبھی کبھی مایوسی کے خیال آنے لگتے تھے۔ اب یہ چار باتیں سامنے رکھ کر قرآن کے قصص و وقائع کا مطالعہ کرو۔ وہ تمام قفل کھل جائیں گے جنہیں ہمارے منقطی مفسروں کی دس دس جلدیں بھی نہ کھول سکیں۔