وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَن فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا ۚ أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّىٰ يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ
اور (اے پیغمبر) اگر تیرا پروردگار چاہتا تو جتنے آدمی روئے زمین پر ہیں سب کے سب ایمان لے آتے (اور دنیا میں اعتقاد کا اختلاف باقی ہی نہ رہتا لیکن تو دیکھ رہا ہے کہ اللہ نے ایسا نہیں چاہا، اس کی مشیت یہی ہوئی کہ طرح طرح کی طبیعتیں اور طرح طرح کی استعداد دیں ظہور میں آئیں، پھر اگر لوگ نہیں ماتے تو) کیا تو ان پر جبر کرے گا کہ جب تک ایمان نہ لاؤ میں چھوڑنے والا نہیں؟
یہاں آیت (٩٩) میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اور غور کرو، کتنے مختصر لفظوں میں کتنی عظیم الشان بات کہہ دی ہے ؟ فرمایا فکر و استعداد کا اختلاف یہاں ناگزیر ہے اور ایمان کوئی ایسی چیز نہیں کہ زور زبردستی سے کسی کے اندر ٹھونس دی جائے۔ یہ تو اسی کے اندر پیدا ہوگا جس میں فہم و قبول کی استعداد ہے۔ پھر اگر تم پر یہ بات شاق گزر رہی ہے کہ کیوں لوگ مان نہیں لیتے تو کیا تم لوگوں پر جبر کرو گے کہ نہیں، تمہیں ضرور مان ہی لینا چاہیے؟ اس آیت سے یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ قرآن کے نزدیک دین و ایمان کا معاملہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں جبر و اکراہ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ جبر و اکراہ کی صورت کا ذکر ان ہونی اور ناکردنی بات کی طرح کیا گیا ہے۔ سورۃ بقرہ کی آیت (٢٥٦) اس بارے میں قرآن کا مقررہ قانو ہے کہ (لا اکراہ فی الدین)