فَمَا آمَنَ لِمُوسَىٰ إِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِّن قَوْمِهِ عَلَىٰ خَوْفٍ مِّن فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ أَن يَفْتِنَهُمْ ۚ وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُسْرِفِينَ
تو دیکھو اس پر بھی ایسا ہوا کہ موسیٰ پر کوئی ایمان نہیں لایا مگر صرف ایک گروہ جو اس کی قوم کے نوجوانوں کا گروہ تھا، وہ بھی فرعون اور اس کے سرداروں سے ڈرتا ہوا کہ کہیں کسی مصیبت میں نہ ڈال دیں، اور اس میں شک نہیں کہ فرعون ملک (مصر) میں بڑا ہی سرکش (بادشاہ) تھا اور اس میں بھی شک نہیں کہ (ظلم و استبداد میں) بالکل چھوٹ تھا۔
آیت (٨٣) میں ان لوگوں کو جو ایمان لئے ذریۃ من قومہ سے تعبیر فرمایا ہے۔ ذریۃ کے اصل معنی کم سن اولاد کے ہیں، لیکن نسل و اولاد کے معنوں میں مطلقا بھی بولا جاتا ہے یہاں چونکہ قوم کے ساتھ ذریعۃ کا لفظ آیا ہے اس لیے ضروری ہے کہ لغوی معنوں ہی میں آیا ہو، یعنی قوم بنی اسرائیل کے کم سن افراد۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب کبھی مقاصد و عزائم کی راہ میں شدائد و محن کا سامان کرنا پڑتا ہے تو قوم کے بڑے بوڑھوں سے بہت کم امید کی جاسکتی ہے۔ زیادہ تر نئی نسل کے نوجوان ہی آگے بڑھتے ہیں۔ کیونکہ بڑے بوڑھوں کی ساری زندگیاں ظلم و فساد کی آب و ہوا میں بسر ہوچکتی ہیں، اور محکوی کی حالت میں رہتے رہتے عافیت کو شی کے عادی ہوجاتے ہیں۔ البتہ نوجوانوں میں نیا دماغ ہوتا ہے، نیا خون ہوتا ہے، نئی امنگیں ہوتی ہیں، انہیں شدائد و محن کا خوف مرعوب نہیں کردیتا۔ وہی پہلے قدم اٹھاتے ہیں، پھر تمام قوم ان کے پیچھے چلنے لگتی ہے۔ مصر میں حضرت موسیٰ کو ایسی ہی صورت پیش آئی، فرعون کے قہر و استبداد نے بنی اسرائیل کے بڑے بوڑھوں کی ہمتیں سلب کردی تھیں۔ وہ شکر گزار ہونے کی جگہ الٹی شکایتیں کرتے، لیکن نوجوانوں کا یہ حال نہ تھا۔ ان میں ایک گروہ نکل آیا جس نے حضرت موسیٰ کے احکام کی تعمیل کی۔