وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَأَن لَّمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ يَتَعَارَفُونَ بَيْنَهُمْ ۚ قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ
اور جس دن ایسا ہوگا کہ اللہ ان سب کو اپنے حضور جمع کرے گا اس دن انہیں ایسا معلوم ہوگا گویا (دنیا میں) اس سے زیادہ نہیں ٹھہرے جیسے گھڑی بھر کو لوگ ٹھہر جائیں اور آپس میں صاحب سلامت کرلیں (تو) بلاشبہ وہ لوگ بڑے ہی گھاٹے میں رہے جنہوں نے اللہ کی ملاقات کا اعتقاد جھٹلایا اور وہ کبھی (کامیابی کی) راہ پانے والے نہ تھے۔
آیت (٤٥) میں اس طرف اشارہ ہے کہ آخرت کی زندگی جب انسان پر طاری ہوگی تو وہ تمام مدت جو مرنے کے بعد سے لے کر نشاۃ ثانیہ تک گزرتی ہے اسے ایسی محسوس ہوگی جیسے ایک بہت ہی قلیل مدت کا درمیانی وقفہ گزرا ہو۔ اس حالت کی مثال یوں سمجھو جیسے کبھی رات بھر سوکر تم اٹھتے ہو اور اٹھنے کے بعد خیال کرتے ہو کہ بہت تھوڑی دیر نیند میں رہے۔ حالانکہ رات بھر نیند میں بسر کرچکے ہوتے ہو۔ یہ حقیقت قرآن نے مختلف تعبیرات میں بیان کی ہے اور سب کا ماحصل یہ ہے کہ وہ عظیم مدت جو انسان پر گزرے اس دن بہت ہی قلیل محسوس ہوگی، سورۃ مومنوں آیت (١١٢) روم (٣٠) احقاف (٤٦) اور نازعات کی آخری آیت دیکھنی چاہیے۔ سورۃ روم کی آیت (٥٦) سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کا احساس اگرچہ سب کو ہوگا لیکن اہل علم و ایمان جس کے دلوں میں یوم آخرت کا یقین تھا اس احساس سے مغلوب نہیں ہوجائیں گے، وہ پالیں گے کہ یہ تمام مدت جو گزر چکی ہے دنیوی زندگی اور اخروی زندگی کی درمیانی مدت تھی اور اب قیامت کا دن ہمارے سامنے ہے۔ ان آیات کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ دنیوی زندگی اس دن اتنی حقیر و قلیل محسوس ہوگی گویا گھڑی بھر کی زندگی، لیکن پہلا مطلب زیادہ واضح اور موزوں ہے۔