وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ ۚ أَفَأَنتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ كَانُوا لَا يَعْقِلُونَ
اور (اے پیغمبر) ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو تیری باتوں کی طرف کان لگاتے ہیں (اور تو خیال کرتا ہے یہ کلام حق سن کر اس کی سچائی پالیں گے حالانکہ فی الحقیقت وہ سنتے نہیں) پھر کیا تو بہروں کو بات سنائے گا اگرچہ وہ بات نہ پاسکتے ہوں؟
آیت (٤٢) اور اس کے بعد کی آیات میں اسی حالت کی طرف اشارہ ہے جو جابجا قرآن میں بیان کی گئی ہے، یعنی جہل و فساد اور تعصب و تقلید کے جمود سے ایسی حالت کا پیدا ہوجانا جو انسان کی عقل و بصیرت کو یک قلم معطل کردیتی ہے اور وہ اس قابل نہیں رہتا کہ سچائی اور حقیقت کا ادراک کرسکے۔ آیت (٤٤) میں فرمایا یہ حالت اس لیے پیش نہیں آتی کہ خدا نے کسی کو اس پر مجبور کردیا ہے۔ کیونکہ اگر ایسا ہو تو یہ ظلم ہے اور خدا کا یہ قانون نہیں کہ کسی جان پر ظلم ہو۔ یہ تو خود انسان ہی ہے جو خدا کی دی ہوئی روشنی ضائع کرکے اندھا بہرا بن جاتا ہے۔