وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ فِيمَا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
اور (ابتدا میں) انسانوں کی ایک ہی امت تھی، پھر الگ الگ ہوگئے، اور اگر تمہارے پروردگار کی جانب سے پہلے ایک بات نہ ٹھہرا دی گئی ہوتی (یعنی لوگ الگ الگ راہوں میں چلیں گے اور اسی اختلاف میں ان کے لیے آزمائش عمل ہوگی) تو جن باتوں میں لوگ اختلاف کرر ہے ہیں ان کا فیصلہ کبھی کا ہوچکا ہوتا۔
آیت (١٩) کے ہم معنی آیت بقرہ (٢٠٩) میں بھی گزر چکی ہے، اور مہمات معارف قرآن میں سے ہے۔ اس کی مزید تشریح سورۃ ہود کی تشریحات میں ملے گی۔ جب تک دنیوی اسباب و علائق کا کوئی ادنی سا سہارا بھی باقی رہتا ہے انسان کا وجدان بیدار نہیں ہوتا اور ایک تنکے کا بھروسہ بھی اس کے لیے کافی ہوتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے غافل ہوجائے۔ لیکن جونہی اسباب و علائق کے رشتے ٹوٹے اور یاس و قنوط کی کامل حالت طاری ہوئی اور اس نے دیکھا کہ اب دنیا کا کوئی ہاتھ اسے بچا نہیں سکتا تو اچانک اس کا سویا ہوا وجدان بیدار ہوجاتا ہے اور خدا پرستی کا جوش اپنے سارے اخلاص کے ساتھ اس کے اندر ابھر آتا ہے۔ اس وقت وہ خدا کے سوا اور کسی کو نہیں دیکھتا، سارے رشتے، سارے بھروسے، ساری ہستیاں یک قلم نابود ہوجاتی ہیں، وہ بے اختیار خدا کو پکارنے لگتا ہے اور اس کی یہ پکار اس کے دل کے ایک ایک ریشہ کی پکار ہوتی ہے، لیکن پھر اس کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ کیا یہ حالت قائم رہتی ہے؟ نہیں جونہی اس کی ڈوبتی کشتی اچھلی اور امید و مراد کی گمشدہ صورت واپس آگئی پھر وہی اس کی غفلتیں ہوتی ہیں اور وہی سرکشیاں۔ اگر تم غور کرو گے تو اس حالت کی مثالیں خود اپنی ہی زندگی میں تمہیں مل جائیں گے۔ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ تم بیمار ہوئے اور طبیبوں نے جواب دے دیا؟ یا کسی دوسری مصیبت میں پڑے اور دنیا کے سارے سہارے ہاتھ سے نکل گئے؟ اگر ایسا ہوا ہے تو یاد کرو، اس وقت تمہاری خدا پرستی اور خدا پرستی کے اخلاص کا کیا حال تھا؟ قرآن نے جابجا اس حالت کے بیان کے لیے بحری سفر کی مثال اختیار کی ہے۔ کیونکہ انسان کی بے بسی اور مایوسی کے لیے اس سے بہتر مثال نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ یہاں آیت (٢٢) میں اسی طرف اشارہ کیا ہے اور سورۃ عنکبوت کی آیت (١٥) اور لقمان کی آیت (٣٢) میں بھی یہی مطلب ملے گا۔ دین حق کی تعلیم و تزکیہ کا مقصد یہی ہے کہ اس حالت سے انسان کی نجات دلا دے اور اس کا وجدان اس طرح بیدار کردے کہ خدا پرستی کا جو اخلاص خاص حالتوں میں ابھرتا ہے وہ اس کی پوری زندگی کی ایک دائم اور مستقر حالت ہوجائے، یہی وجہ ہے کہ ایمان کی حالت یہ بیان فرمائی کہ مصیبت کی گھڑی ہو یا راحت و سرور کا عالم لیکن خدا کی یاد سے دل پر غفلت طاری نہ ہو۔