سورة البقرة - آیت 130

وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ ۚ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(یہ ہے ابراہیم کا طریقہ) اور ان لوگوں کے سوا جنہوں نے اپنے آپ کو نادانی و جہالت کے حوالے کردیا ہے کون ہے جو ابراہیم کے طریقے سے منہ پھیر سکتا ہے؟ اور واقعہ یہ ہے کہ ہم نے دنیا میں بھی اسے برگزیدگی کے لیے چن لیا اور آخرت میں بھی اس کی جگہ نیک انسانوں کے زمرے میں ہوگی

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

دین کی جو راہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اختیار کی تھی وہ کیا تھی؟ ان کے بعد ان کی اولاد جس طریقہ پر چلتی رہی وہ کونسا طریقہ تھا؟ خود "اسرائیل" یعنی حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے بستر مرگ پر جس دین کی وصیت کی تھی وہ کون سا دین تھا؟ یقینا وہ یہودیت اور مسیحتی کی گروہ بندی نہ تھی۔ وہ صرف خدا پر ایمان لانے اور اس کے قانون سعادت کی فرمانبرداری کرنے کی فطری اور عالمگیر سچائی تھی اور اسی کی دعوت قرآن دیتا ہے۔ دین الٰہی کو اسی لیے "الاسلام" کے نام سے تعبیر کیا گیا جس کے معنی اطاعت کرنے کے ہیں یعنی ہر طرح کی نسبتوں اور گروہ بندیوں سے الگ ہوکر، صرف اطاعت حق کی طرف انسان کو دعوت دی جائے۔