سورة یونس - آیت 1

الر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

الر۔ یہ آیتیں ہیں کتاب حکیم کی (یعنی ایسی کتاب کی جس کی تمام باتیں حکمت کی باتیں ہیں)

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

سورۃ انعام کی طرح اس سورت میں بھی خطاب مشرکین عرب سے ہے اور مواعظ کا مرکز دین حق کے مبادی و اساسات ہیں۔ یعنی توحید، وحی و نبوت ور آخرت کی زندگی، سلسلہ بیان منکرین وحی کے ذکر سے شروع ہوا ہے، کیونکہ ہدایت دینی کی سب سے پہلی کڑی یہی ہے اور اسی کے اعتقاد پر اور تمام باتوں کا اعتقاد موقوف ہے۔ منکرین حق ایک طرف تو وحی و نبوت سے انکار کرتے دوسری طرف یہ بھی دیکھتے تھے کہ یہ آدمی اور آدمیوں کی طرح نہیں ہے، کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے، پھر جب اس کی کوئی توجیہ بن نہ پڑتی تو کہتے ہو نہ ہو یہ جادوگری ہے۔ ان کا یہ قول قرآن کی حیرت انگیز تاثیر کی سب سے بڑی شہادت ہے۔ یعنی اس کا اثر اس درجہ نمایاں اور قطعی تھا کہ باوجود عناد و جحود کے اس سے انکار نہیں کرسکتے تھے۔ اسے جادوگری سے تعبیر کرنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ آسمان و زمین کی چھ ایام میں خلقت سے مقصود کیا ہے؟ اس کی طرف سورۃ اعراف میں اشارہ ہوچکا ہے مزید تشریح سورت کے آخری نوٹ میں ملے گی۔ توحید ربوبیت سے توحید الوہیت پر استدلا۔ یعنی جب تم مانتے ہو کہ کائنات ہستی کا پیدا کرنے والا اللہ کے سوا کوئی نہیں تو پھر تدبیر و انتظام عالم کے بہت سے تخت اقتدا تم نے کیوں بنا رکھے ہیں؟ اور کیوں انہیں بندگی و نیاز کا مستحق سمجھتے ہو؟ جس طرح یہ بات ہوئی کہ پیدا کرنے والی ہستی اس کے سوا کوئی نہیں اسی طرح تدبیر و فرماں روائی کا تخت بھی صرف اسی کا تخت ہوا۔ اس میں نہ تو کسی سفارشی کی سفارش کو دخل ہے نہ کسی مقرب کے تقرب کو۔ یہی مضمون سورۃ اعراف کی آیت (٥٤) میں گزر چکا ہے۔ (الا لہ الخلق والامر)