سورة التوبہ - آیت 118

وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اسی طرح) ان تین شخصوں پر بھی (اس کی رحمت لوٹ آئی) جو (معلق حالت میں) چھوڑ دیئے گئے تھے (اور اس وقت لوٹ آئی) جبکہ زمین اپنی ساری وسعت پر بھی ان کے لیے تنگ ہوگئی تھی، اور وہ خود بھی اپنی جان سے تنگ آگئے تھے اور انہوں نے جان لیا تھا کہ اللہ سے بھاگ کر انہیں کوئی پناہ نہیں مل سکتی مگر خود اسی کے دامن میں، پس اللہ (اپنی رحمت سے) ان پر لوٹ آیا تاکہ وہ رجوع کریں بلا شبہ اللہ ہی ہے بڑا توبہ قبول کرنے والا، بڑا ہی رحمت والا۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

شرح وعلی الثلاثۃ الذین خلفوا : آیت (١١٧) پچھلی آیتوں کے بعد نازل ہوئی ہے، اس میں ان لوگوں کو قبولیت توبہ کی بشارت دی ہے جن سے غزوہ تبوک کی تیاریوں میں کوتاہی ہوئی تھی اور جن کی نسبت آیت (١٠٢) میں فرمایا تھا کہ انہیں رحمت الہی کا امیدوار رہنا چاہیے۔ چونکہ قبولیت کا مقتضا یہ تھا کہ ان کے دلوں کے زخم دھوئے جائیں اور مرحمت و اکرام کے مرہموں سے تسکین پائیں اس لیے پیرائی بیان ایسا اختیار کیا گیا کہ ان کے سارے دکھوں کا مداوا ہوگیا۔ انہوں نے اس لغزش کی وجہ سے اپنی اصلی جگہ کھو دی، یعنی جن مقبولوں کے ساتھ ان کا شمار تھا ان کی صف سے باہر ہوگئے تھے۔ پس قبولیت توبہ کا مژدہ سنایا گیا تو اس طرح کہ پہلے خود پیغمبر اسلام کا نام آیا پھر مہاجرین و انصار کا اور پھر انہی کے ضمن میں ان لوگوں کا بھی ذکر کردیا گیا اور رحمت الہی کی توجہ یکساں طور پر سب کے لیے کہی گئی تاکہ اب کوئی اس حلقہ سے باہر نہ رہے۔ جن سے قصور ہوا تھا، وہ بھی محسوس کرنے لگیں کہ رحمت و قبولیت کی ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے ہیں۔ گدایاں را ازیں معنی خبر نیست۔۔۔۔ کہ سلطان جہاں با است امروز۔ توبہ کے معنی رجوع ہونے اور لوٹنے کے ہیں، اللہ کا اپنی رحمت کے ساتھ لوٹنا کاملوں کے لیے یہ ہے کہ مزید رحمت و اکرام ہو، قصور مندوں کے لیے یہ کہ قبولیت و مغفرت ہو۔ اس کے بعد فرمایا : ان تین آدمیوں کی بھی توبہ قبول ہوگئی جن کا معاملہ ملتوی کردیا گیا تھا یعنی جن کی نسبت کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا تھا اور پیغمبر اسلام نے فرمایا تھا حکم الہی کا انتظار کرو۔ چنانچہ آیت (١٠٦) میں انہی کی نسبت گزر چکا ہے کہ حکم الہی کے انتظار میں ہیں۔ یہ تین شخص کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع تھے۔ کعب بن مالک ان تہتر سابقین انصار میں سے جنہوں نے عقبہ ثانیہ میں بیعت کی تھی اور ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع دونوں بدری تھے یعنی ان جاں نثاروں میں جنہوں نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی۔ ان تینوں سے بھی غزوہ تبوک میں کوتاہی ہوئی ور شریک نہ ہوئے لیکن جب آنحضرت واپس تشریف لائے اور ساتھ نہ دینے والے اپنے اپنے عذر پیش کر رکے معافی مانگنے لگے تو انہوں نے کوئی خاص عذر پیش نہیں کیا اور صاف صاف تسلیم کرلیا کہ ہماری سستی اور کاہلی تھی کہ اس سعادت سے محروم رہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا حکم الہی کا انتظار کرو۔ پھر تمام مسلمانوں کو حتی کہ ان کی بیویوں کو بھی حکم ہوا کہ ان سے ملنے جلنے کے تمام تعلقات منقطع کرلو۔ چنانچہ اچانک انہوں نے اپنے آپ کو اس حالت میں پایا کہ مدینہ اور اطراف مدینہ کی پوری آبادی نے ان کی طرف سے رخ پھیر لیا تھا۔ ان کے عزیز و قریب تک ان کے سلام کا جواب نہیں دیتے تھے۔ آخر جب پورے پچاس دن اس حالت میں گزر گئے تو یہ آیت نازل ہوئی اور انہیں قبولیت توبہ کی بشارت ملی۔ ان تین صحابیوں میں سے حضرت کعب بن مالک نے خود اپنی سرگزشت تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں تمام جنگوں میں میں نے رسول اللہ کے ساتھ شرکت کی اور اس موقع پر بھی نکلنے کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن ایک کے بعد ایک دن نکلے گئے اور میں اسی خیال میں رہا کہ اپنے معاملات نپٹا لوں تو نکلوں۔ یہاں تک کہ آج کل ہوتے ہوتے پورا وقت نکل گیا۔ اتنے میں خبر اڑی کہ آنحضرت واپس آرہے ہیں۔ تب میری آنکھیں کھلیں، لیکن اب کیا ہوسکتا تھا، آپ حسب معمولی پہلے مسجد میں تشریف لائے اور جو لوگ کوچ میں شریک نہیں ہوئے تھے وہ آ آ کر معذرتیں کرنے لگے اور قسمیں کھا کھا کر اپنی سچائی کا یقین دلانے لگے۔ یہ کچھ اوپر اسی آدمی تھے، انہوں نے جو کچھ ظاہر کیا آنحضرت نے قبول کرلیا اور ان کے دلوں کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا۔ جب میری طرف متوجہ ہوئے تو مجھ سے یہ نہ ہوسکا کہ کوئی جھوٹی معذرت بنا کر کہہ دیتا۔ جو کچھ سچی بات تھی صاف صاف عرض کردی۔ آپ نے سن کر فرمایا اچھا جاؤ اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کردے میں نے لوگوں سے پوچھا اور بھی کسی کو ایسا حکم ہوا ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ کو۔ اس کے بعد جب آنحضرت کا حکم ہوا کہ ہم تینوں سے کوئی بات چیت نہ کرے تو سب نے منہ پھیر لیا۔ اچانک دنیا کچھ سے کچھ ہوگئی، گویا کل تک جس دنیا میں تھا اب وہ دنیا ہی نہیں رہی تھی۔ میرے دونوں شریک ابتلا گھر میں بند ہو کر بیٹھ رہے تھے لیکن میں سخت جان تھا۔ اس حالت میں بھی روز گھر سے نکلتا، مسجد میں حاضری دیتا، جماعت میں شریک ہوتا اور پھر ایک گوشہ میں سب سے الگ بیٹھ جاتا۔ اکثر ایسا ہوا کہ نماز کے بعد قریب جاکر سلام عرض کرتا اور پھر اپنے جی میں کہتا دیکھوں سلام کے جواب میں آپ کے لبوں کو حرکت ہوتی ہے یا نہیں؟ آپ گوشہ چشم سے کبھی کبھی دیکھ لیتے لیکن جب میری نگاہ حسرت اٹھتی تو رخ پھر جاتا : بہر تسکین دل نے رکھ لی ہے غنیمت جان کر۔۔۔۔ وہ جو وقت ناز کچھ جنبش ترے ابرو میں ہے !!! ایک دن شہر سے باہر نکلا تو ابو قتادہ کے باغ تک پہنچ گیا، یہ میرا چچیرا بھائی تھا اور اپنے تمام عزیزوں میں اسے زیادہ محبوب رکھتا تھا۔ میں نے سلام کیا مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا، میں نے کہا ابو قتادہ ! کیا تم نہیں جانتے کہ میں مسلمان ہوں اور اللہ اور اس کے رسول کی اپنے دل میں محبت رکھتا ہوں؟ اس پر بھی اس نے میری طرف رخ نہیں کیا، لیکن جب میں نے یہی بات بار بار دہرائی تو صرف اتنا کہا اللہ ورسولہ اعلم اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے، تب مجھ سے ضبط نہ ہوسکا اور بے اختیار آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ وہاں سے واپس ہوا تو راستہ میں شام کا ایک نبطی مل گیا، وہ لوگوں سے کہہ رہا تھا کوئی ہے جو کعب بن مالک تک پہنچا دے لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا تو اس نے پادشاہ غسان کا ایک خط نکال کر میرے حوالہ کیا، اس میں لکھا تھا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے تمہارے آقا نے تم پر سختی کی ہے، تم ہمارے پاس چلے آؤ ہم تمہاری قدرومنزلت کریں گے۔ خط پڑھ کر میں نے کہا یہ ایک اور نئی مصیبت آئی، گویا پچھلی بلائیں کافی نہ تھیں۔ جب اس حالت پر چالیس راتیں گزر چکیں تو آنحضرت کی جانب سے ایک آدمی آیا اور کہا حکم ہوا ہے تم اپنی بیوی سے الگ ہوجاؤ، میں نے کہا طلاق دے دوں؟ کہا نہیں صرف علیحدگی کا حکم ہے، ہلال اور مرارہ کو بھی ایسا ہی حکم ہوا ہے، اس پر میں نے اپنی بیوی کو اس کے میکے بھجوا دیا۔ جب دس دن اور گزر گئے تو پچاسویں رات پر صبح آئی، میں اپنے مکان کی چھت پر نماز پڑھ کر بیٹھا تھا، اور ٹھیک ٹھیک وہی حالت تھی جس کی تصویر اللہ کے کلام نے کھینچ دی ہے۔ زندگی سے تنگ آگیا تھا اور خدا کی زمین ببھی اپنی ساری پہنائیوں پر میرے لیے تنگ ہوگئی تھی۔ اچانک کیا سنتا ہوں، کوئی آدمی کوہ سلع پر سے پکار رہا ہے، کعب بن مالک ! بشار ہو، تمہاری توبہ قبول ہوگئی۔ چہ مبارک سحرے بود و چہ فرخندہ شبے۔۔۔ آن شب قدر کہ ایں تازہ براتم دادند !! اب لوگ جوق در جوق مجھے مبارک باد دینے کے لیے دوڑے، ایک آدمی گھوڑا دوڑاتے ہوئے آیا، لیکن بشارت کی آواز اس سے بھی زیادہ تیز ثابت ہوئی تھی۔ میں مسجد میں حاضر ہوا تو آنحضرت لوگوں کے حلقہ میں بیٹھے تھے۔ آنحضرت کا قاعدہ تھا کہ جب خوش ہوتے تو چہرہ مبارک چمکنے لگتا، جیسے چاند کا ٹکڑا ہو، ہم لوگوں کو یہ بات معلوم تھی، اس لیے ہمیشہ آپ کے چہرہ پر نگاہ رکھتے تھے۔ چنانچہ میں نے دیکھا، اس وقت بھی چہرہ مبارک چمک رہا تھا، فرمایا کعب ! تجھے آج اس دن کے ورود کی بشارت دیتا ہوں جو تیری زندگی کا سب سے بہترین دن ہے۔ میں نے عرض کیا یہ بات آپ کی جانب سے ہوئی یا اللہ کی وحی سے؟ فرمایا اللہ کی وحی سے۔ (صحیحین) اس آیت کا نوٹ نوٹ کے حدود سے متجاوز ہوگیا لیکن تفصیل اس لیے ضروری ہوئی کہ معاملہ اہم ہے اور اس میں مسلمانوں کے لیے بڑی ہی عبرت و موعظت ہے۔ امام احمد بن حنبل کی نسبت منقول ہے کہ قرآن کی کوئی آیت انہیں اس قدر نہیں رلاتی تھی جس قدر یہ آیت اور کعب بن مالک کی روایت۔ اس سے معلوم ہوا کہ : (ا) خدمت حق میں تساہل ایک مومن کے لیے کیسا سخت جرم ہے کہ ایسے مخلص اور مقبول صحابی بھی اس درجہ سرزنش کے مستحق ہوئے، اور تمام مسلمانوں کو ان سے قطع علائق کا حکم دیا گیا۔ (ب) مسلمانوں کی اطاعت و اتثال کا کیا حال تھا کہ جونہی انقطاع علائق کا حکم ہوا، تمام شہر نے بیک دفعہ رخ پھیر لیا۔ چوری چھپے بھی کسی نے اس حکم کی خلاف ورزی نہیں کی، حتی کہ ان کے محبوب سے محبوب عزیزوں کو بھی یہ خیال گزرا کہ ایک لمحہ کے لیے اس پر عمل کریں یا کم از کم تعمیل میں نرمی و تساہل سے کام لیں۔ ابو قتادہ کا حال خود حضرت کعب کی زبان سے سن چکے ہو جب انہوں نے کہا تم تو اس سے بے خبر نہیں ہوسکتے کہ میں سچا مسلمان ہوں۔ اللہ اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہوں، پھر مجھ سے رخ کیوں پھیر لیا ہے؟َ تو ابو قتادہ نے صرف یہی کہا کہ اللہ ورسولہ اعلم۔ ان تین لفظوں میں اس عہد کے مسلمانوں کی ذہنیت کی پوری تصویر اتر آئی ہے یعنی مجھے معلوم تو سب کچھ ہے، جانتا ہوں کہ تم پکے مسلمان ہو، لیکن اپنے جاننے کو کیا کروں؟ جاننتا تو اللہ اور اس کے رسول کا ہے اور اس کا حکم یہی ہے کہ تم سے کوئی واسطہ نہ رکھوں۔ پھر اس اطاعت کے لیے نہ تو کوئی مادی قوت کام میں لائی گئی تھی۔ نہ عمال حکومت کا ڈر تھا، نہ قانون و عدالت کا، صرف ایک شخص کے لبوں نے حرکت کی تھی اور اتنی بات سب کو معلوم ہوگئی تھی کہ اس کی مرضی یہی ہے۔ بس اتنی بات کا معلوم ہوجانا اس کے لیے کافی تھا کہ سب کے دل مجسم اطاعت و اتثال بن جائیں۔ (ج) پھر یہ بھی دیکھو کہ مسلمانوں کی باہمی اخوت و محبت کا کیا حال تھا؟ اس سختی کے ساتھ حکم کی تعمیل تو سب نے کی لیکن ساتھ ہی ان کی مصیبت کے غم سے کوئی دل خالی بھی نہ تھا۔ سب کے دلوں کو لگی تھی کہ ان کی توبہ قبول ہوجائے، جونہی قبولیت کا اعلان ہوا ایک پر ایک دوڑنے لگا کہ ان سختی کشان عشق کو سب سے پہلے میری زبان مژدہ قبولیت ملے، کوہ سلع پر سے جس نے پکار کر سب سے پہلے بشارت سنائی تھی حضرت کعب نے گو اس کا نام نہیں لیا لیکن وہ حضرت ابوبکر تھے۔ تعلیم و تعلم کے نظام کا قیام : اس سے پہلے آیت (٩٧) میں بدوی قبائل کی نسبت فرمایا تھا کہ احکام دین سے بے خبری ان سے زیادہ متوقع ہے۔ کیونکہ تعلیم و تربیت سے محروم رہتے ہیں، اب یہاں اشارہ کیا کہ تعلیم کا ایک عام نظم قائم کرنا چاہیے، یہ تو ہو نہیں سکتا کہ تمام مسلمان گھر چھوڑ کر تحصیل علم کے لیے نکل کھڑے ہوں۔ پس ایسا کرنا چاہیے کہ ہر بستی اور ہر گروہ میں سے کچھ لوگ اس کام کے لیے وقف ہوجائیں۔ وہ تعلیم و تربیت کے مرکز میں (اور اس وقت مرکز مدینہ تھا) رہ کر دین میں بصیرت پیدا کریں اور پھر اپنی آبادیوں میں جاکر دوسروں کو تعلیم دیں۔ قرآن کے یہی اشارات ہیں جنہوں نے مسلمانوں میں اول دن سے تحصیل علم کا عام ولولہ پیدا کردیا تھا، حتی کہ انہوں نے ایک صدی کے اندر ہی اندر اس کا ایک ایسا عالمگیر نظام قائم کردیا جس کی نظیر دنیا کی کسی قوم کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ معرکہ یرموک کی پیشین گوئی : آیت (٢٣) میں غالبا اس طرف اشارہ تھا کہ گو تبوک میں رومیوں سے مقابلہ نہیں ہوا کیونکہ انہوں نے حملہ کا ارادہ ملتوی کردیا تھا، لیکن وہ پھر تیاریاں کرنے والے ہیں اور ضروری ہے کہ مسلمان جنگ کے لیے مستعد رہیں۔ اس صورت میں الذین یلونکم۔ کا مطلب یہ ہوگا کہ جو دشمن تمہاری سرحد سے متصل ہیں۔ یعنی شام کے رومی اور عرب کے عیسائی قبائل، چنانچہ چند سالوں کے بعد ایسا ہی ہوا، اور یرموک کا معرکہ پیش آیا۔ چونکہ رومیوں کا مقابلہ اس عہد کی سب سے زیادہ طاقتور اور متمدن شاہنشاہی کا مقابلہ تھا اس لیے فرمایا۔ اس قوت سے لڑو کہ وہ تمہاری سختی محسوس کریں، مسلمانوں نے اس حکم کی جس طرحح تعمیل کی اس کا اندازہ صرف اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ہر قل کی فوج بالاتفاق دو لاکھ سے زیادہ تھی اور مسلمان زیادہ سے زیادہ چوبیس ہزار تھے لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیشہ کے لیے رومی حکومت کا شام میں خاتمہ ہوگیا۔