وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور دوسرے لوگ (وہ ہیں) جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا، انہوں نے ملے جلے کام کیے، کچھ اچھے کچھ برے تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ ان پر (اپنی رحمت سے) لوٹ آئے، اللہ بڑا ہی بخشنے والا بڑا ہی رحمت والا ہے۔
آیت (١٠٢) سے لے کر (١٠٦) تک ان لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے اگرچہ اس موقع پر کوتاہی کی تھی لیکن اس کا سبب نفاق نہ تھا، سستی اور کاہلی تھی، پیغمبر اسلام جب سفر سے واپس آئے تو ان میں سے ہر شخص سچائی کے ساتھ اپنی غفلت پر منفعل ہوا اور کوئی نہ تھا جس کا دل حسرت و ندامت کے زخموں سے چور نہ ہورہا ہو۔ اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی کیونکہ اس کی بخشش و رحمت کا دروزازہ کبھی بند نہیں ہوسکتا۔ شرط صرف یہ ہے کہ خود ہم اپنے دلوں کا دروازہ اپنے ہاتھوں بند نہ کرلیں : نہ پہنچی ضعف سے لب تک دعا ہی ورنہ سدا۔۔۔۔ در قبول تو اس آروزو میں باز رہا !!! فرمایا انہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا اور ان کا اعتراف دل کا اعتراف ہے، پس کوئی وجہ نہیں کہ ان کی توبہ قبول نہ ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس بارے میں اصل کار گناہوں کا سچا اعتراف ہے اور جو سرا اعتراف ذنوب میں جھک گیا پھر اس کے لیے محرومی نہیں ہوسکتی۔ کہ مستحق کرامت گناہ گار انند اس سے پہلے حکم گزر چکا ہے کہ منافقوں کی خیرات قبول نہ کرو وارا نہ اس کی بخشش کے لیے دعا کرو۔ یہاں فرمایا جن لوگوں نے اب اپنی خطاؤں کا اقرار کرلیا اور تائب ہوگئے تو وہ جو کچھ راہ حق میں نکالیں اسے قبول کرلو اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو۔ تمہاری دعا ان کے دلوں کے لیے کہ حسرت و ندامت سے زخمی ہورہے ہیں راحت و سکون کا مرہم ثابت ہوگی۔ نیز فرمایا تم اس ذریعہ سے انہیں مطہر اور مزکی کردو گے یعنی خیرات و زکوۃ کا نکالنا اور اس کا قبول ہونا ایک ایسا معاملہ ہے جو نفس کی پاکی و تربیت کا باعث ہوتا ہے۔ مزید اشارات کے لیے آخری نوٹ میں زکوۃ کا مبحث دیکھو۔