وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ
اور ان اعرابیوں میں جو تمہارے آس پاس بستے ہیں کچھ منافق ہیں اور خود مدینہ کے باشندوں میں بھی جو نفاق میں (رہتے رہتے) مشاق ہوگئے ہیں۔ (اے پیغمبر) تم انہیں نہیں جانتے لیکن ہم جانتے ہیں، ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے، پھر اس عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے تو بہت ہی بڑا عذاب ہے۔
آیت (١٠١) میں منافقوں کے ایک خاص گروہ کا ذکر کیا جو اطراف مدینہ کے بدوی قبائل میں بھی تھے اور شہری باشندوں میں بھی۔ فرمایا (مردوا علی النفاق) یہ نفاق میں مشاق اور حاذق ہوگئے ہیں۔ یعنی منافقانہ زندگی میں رہتے رہتے اس کی ایسی مشق و مزاولت ہوگئی ہے کہ نو آموزوں کی طرح پکڑے نہیں جاسکتے۔ جو کچھ اور نو آموز ہیں ان کے لیے مشکل ہے کہ اپنی دلی حالت چھپائے رکھیں۔ وہ ان کے چہروں پر ابھر ہی آتی ہے اور باتوں سے ٹپکنے ہی لگتی ہے لیکن یہ لوگ اس بناوٹ کے ایسے عادی ہوگئے ہیں کہ ممکن نہیں عام نگاہیں تاڑ سکیں۔ ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے، یعنی یہ اپنی دہری استعداد نفاق کی وجہ سے دہرے عذاب کے مستحق ہوگئے، پہلی استعداد یہ کہ منافق ہوئے دوسری یہ کہ اس میں کامل و مشاق ہوگئے۔ قرآن نے جابجا یہ حقیقت واضھ کی ہے کہ اعمال کے نتائج ٹھیک ٹھیک ان کی حالت اور درجہ کے مطابق نکلتے ہیں۔ اگر ایک شخص نے زہر کھالیا لیکن ہلکے قسم کا تو نتیجہ بھی ہلکے قسم کی مضرت کا نکلے گا۔ لیکن اگر زہر قاتل ہے تو نتیجہ بھی قاتل ہوگا۔ ایسا ہی قانون روحانی زندگی میں بھی کام کر رہا ہے اور اچھائیوں کی طرح برائیوں کے بھی اقسام و مدارج ہیں۔