إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ وَهُمْ أَغْنِيَاءُ ۚ رَضُوا بِأَن يَكُونُوا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطَبَعَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
الزام تو دراصل ان پر ہے جو تجھ سے (بیٹھے رہنے کی) اجازت مانگتے ہیں حالانکہ مالدار ہیں، انہوں نے پسند کیا کہ (جب سب لوگ راہ حق میں کوچ کر رہے ہوں تو یہ) گھروں میں رہ جانے والی عورتوں کے ساتھ رہیں (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی، پس جانتے بوجھتے نہیں۔
آیت (٩٣) میں فرمایا ادائے فرض کے وقت عورتوں کے ساتھ بیٹھے رہنا ایک ایسی نامردی کی بات ہے جسے کوئی خود دار آدمی گوارا نہیں کرسکتا لیکن انہوں نے یہ بھی گوارا کرلیا۔ کیونکہ جہل و بے حسی کی انتہائی حالت ان پر طاری ہوگئی ہے۔ اس حالت کو جو انتہا درجہ غفلت و انکار کا لازمی نتیجہ ہے قرآن مہر لگا دینے سے تعبیر کرتا ہے۔ اس تعبیر کی تشریح پچھلی سورتوں میں گزر چکی ہے خصوصا سورۃ اعراف کی آیت (١٤٦) کے نوٹ میں۔