لَّيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَىٰ وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِن سَبِيلٍ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
ناتوانوں پر بیماروں پر اور ایسے لوگوں پر جنہیں خرچ کے لیے کچھ میسر نہیں کچھ گناہ نہیں ہے (اگر وہ دفاع میں شریک نہ ہوں) بشرطیکہ اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی میں کوشاں رہیں (کیونکہ ایسے لوگ نیک عملی کے دائرے سے الگ نہیں ہوئے اور) نیک عملوں پر الزام کی کوئی وجہ نہیں، اللہ بڑا ہی بخشنے والا رحمت والا ہے۔
آیت (٩١) میں بتلا دیا کہ اگر دفاع کے لیے نفیر عام ہو تو کن کن لوگوں کو معذور تصور کیا جاسکتا ہے، فرمایا ناتواں آدمی یعنی جو لوگ جسمانی طور پر مجبور ہوں، مثلا بہت بوڑھے، اندھے اپاہج، دوسرے بیمار، تیسرے ایسے لوگ جو سفر کی لازمی ضروریات کے انتظام کی مقدرت نہ رکھتے ہوں۔ اس عہد میں نہ تو سرکاری فوج وجود میں آئی تھی نہ رضا کاروں کی کوئی الگ قسم تھی نہ سپاہیوں کے مصارف کے لیے حکومت کا کوئی خزانہ تھا۔ سبھی رضا کار تھے اور سب کے لیے ضروری تھا کہ اپنا خرچ خود ہی اٹھائیں بلکہ بن پڑے تو دوسروں کے لیے بھی خرچ کریں۔ پس فرمایا جو لوگ فی الحقیقت مقدور نہیں رکھتے کوئی وجہ نہیں کہ ان پر الزام آئے۔ خصوصا وہ لوگ جن کے ایمان و اخلاص کا یہ حال تھا کہ جب ان کے لیے سواری کا انتظام نہ ہوسکا اور تیسرے ادب و احترام نے اس کی بھی اجازت نہ دی کہ وہ زیادہ اصرار کریں تو خاموش اٹھ کر لوٹ گئے۔ لیکن آنکھیں جو درد و دل کی غماز ہیں خاموش نہ رہ سکیں۔ حسرت و غم کے آنسو بے اختیار بہنے لگے : چشم آستیں بردار و شکم را تماشا کن !!! قرآن کی معجزانہ بلاغت دیکھو۔ پہلے بے مقدوروں کا ذکر ہوچکا تھا لیکن خصوصیت کے ساتھ پھر ان کا ذکر کیا اور ان کی محبت ایمانی کی تصویر کھینچ دی۔ تاکہ نفاق کے مقابلہ میں ایمان کا بھی ایک مرقع سامنے آجائے۔ یعنی یا تو وہ ہیں کہ قدرت رکھنے پر بھی حیلے بہانے نکالتے ہیں، یا یہ ہیں کہ مقدرت نہ رکھنے پر بھی دل کی لگن چین سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ آنسو بن کر آنکھوں سے ٹپک رہی ہے۔ غزوہ تبوک میں سواریوں کی بڑی قلت تھی، اٹھارہ آدمیوں کے حصے میں ایک اونٹ آیا تھا، احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کی ایک جماعت نے جو زادا راہ کی مقدرت نہیں رکھتی تھی پیغمبر اسلام سے عرض کیا، ہمارے لیے سواری کا بندوبست کردیجیے۔ آپ نے کہا کہاں سے کروں کوئی سامان نہیں پاتا، اس پر وہ روتے ہوئے چلے گئے اور ان کے درد و غم کا یہ حال تھا کہ البکائین کے نام سے مشہور ہوگئے تھے۔ یعنی بہت رونے والے۔ (ابن جریر) سبحان اللہ ان چند آنسوؤں کی قدروقیمت جو ایمان کی تپش سے بہے تھے کہ ہمیشہ کے لیے ان کا ذکر کتاب اللہ نے محفوظ کردیا۔ آج بھی کہ تیرہ صدیاں گزر چکی ہیں ممکن نہیں ایک مومن یہ آیت پڑھے اور ان آنسوؤں کی یاد میں خود اس کی آنکھیں بھی اشکبار نہ ہوجائیں۔