وَجَاءَ الْمُعَذِّرُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَهُمْ وَقَعَدَ الَّذِينَ كَذَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ سَيُصِيبُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور (اے پیغمبر) اعرابیوں میں سے (یعنی عرب کے صحرائی بدوں میں سے) عذر کرنے والے تمہارے پاس آئے کہ انہیں بھی (رہ جانے کی) اجازت دی جائے اور (ان میں سے) جن لوگوں نے اظہار اسلام کر کے) اللہ اور اس کے رسول سے جھوٹ بولا تھا وہ گھروں ہی میں بیٹھے رہے، سو معلوم ہوا کہ ان میں سے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی انہیں عنقریب عذاب دردناک پیش آئے گا۔
آیت (٩٠) میں سلسلہ بیان ایک دوسرے گروہ کی طرف متوجہ ہوا ہے کہ ان میں بھی ایک جماعت منافقوں کی تھی اور ایک جماعت کمزور ایمان والوں کی یعنی صحرا نشین قبائل کی جن کا بقیہ آج بھیی موجود ہے اور عرب کے بدو کہے جاتے تھے۔ ان کا بڑا حصہ نیا نیا مسلمان ہوا تھا اور شہروں میں نہ رہنے کی وجہ سے ابھی اسلامی زندگی کی تربیت نہیں ملی تھی۔ غزوہ تبوک کا بلاوا ہوا تو کچھ لوگ آئے اور عذر پیش کیے۔ کچھ ایسے نکلے جو چپکے بیٹھے رہے۔ معذرت کے لیے بھی نہیں آئے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عذر کرنے والے عامر بن طفیل کے قبیل کے تھے۔ انہوں نے کہا تھا اگر ہم آپ کے ساتھ نکلے تو قبیلہ طے کے بدو ہمارے مویشی اور اولاد پر آپڑیں گے۔ (ابن جریر) چنانچہ جو منافق تھے ان کے لیے وعید ہوئی۔ اور جنہوں نے کمزوری کی وجہ سے پہلو تہی کی تھی ان پر عتاب ہوا۔ کوئی بات دنیا میں اس سے زیادہ عجیب نہیں ہوسکتی کہ وحشی اور بہائم صفت انسان اچانک محبت و اخلاص اور ایثار و خود فروشی کے لیے فرشتے بن جائیں لیکن قرآن کی تعلیم نے ایسا ہی انقلاب پیدا کیا۔ اوپر گزر چکا ہے کہ غزوہ تبوک بڑے ہی ناموافق حالات میں پیش آیا تھا۔ حتی کہ لوگوں کی افسردگی پر اللہ کا عتبا ہوا لیکن اس پر بھی لوگوں کا کیا حال تھاَ ؟ یہ تھا کہ شدت درد و غم سے بے اختیار ہو کر رونے لگتے تھے۔ کس بات پر؟ اس پر کہ عیش و راحت میں انہیں حصہ نہیں ملا؟ نہیں اس پر کہ راہ حق کی مصیبتوں اور قربانیوں میں شریک ہونے سے رہ گئے۔