عَفَا اللَّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ
(اے پیغمبر) اللہ تجھے بخشے ! تو نے ایسا کیوں کیا کہ (ان کی منافقانہ عذر دارویوں پر) انہیں (پیچھے رہ جانے کی) رخصت دے دی؟ اس وقت تک رخصت نہ دی ہوتی کہ تجھ پر کھل جاتا کون سچے ہیں اور تو معلوم کرلیتا کون جھوٹے ہیں؟
آیت (٤٣) کے اسلوب بیان پر غور کرو، کیسے دلکش اور محبت انداز میں پیغمبر اسلام کو متنبہ کیا ہے کہ رحمت و درگزر کی ایک حد ہونی چاہیے۔ اب یہ اس کے مستحق نہیں کہ رسی اتنی ڈھیلی چھوڑ دی جائے۔ فرمایا جب یہ لوگ ایک طرف تو جھوٹے عذر سناتے تھے دوسری طرف یہ بھی کہتے جاتے تھے کہ جو آپ کا حکم ہو تو بہتر تھا کہ تم انہیں پوری آزمائش میں ڈال دیتے، یعنی کہتے میرا حکم تو یہی ہے کہ چلنا چاہیے، نتیجہ یہ نکلتا کہ کھل جاتا، کون یہ کہنے میں سچے تھے، کون ایسا کہہ دینے پر بھی نہ نکلنے والے تھے۔