إِلَّا تَنفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اگر قدم نہ اٹھاؤ گے تو یاد رکھو وہ تمہیں ایک ایسے عذاب میں ڈالے گا جو دردناک ہوگا اور تمہاری جگہ کسی دوسرے گروہ کو لاکھڑا کرے گا اور تم (دفاع سے غافل ہوکر) اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکو گے (اپنا ہی نقصان کرو گے) اور اللہ تو ہر بات پر قادر ہے۔
قرآن نے یہاں آیت (٣٩) میں اور نیز دیگر مقامات میں استبدال اقوام کا ذکر کیا ہے یعنی فرمایا ہے یاد رکھو اگر تم نے ادائے فرض میں کوتاہی کی تو خدا کا قانون اس طرح کا واقع ہوا ہے کہ تمہاری جگہ کسی دوسرے گروہ کو لاکھڑا کرے گا۔ تاریخ کا مطالعہ کرو تو اس استبدال کے مناظر تمہارے سامنے آجائیں گے اور قرآن پر تدبر کرو تو اس کے سنن و نوامیس واضح ہوجائیں گے۔ حکمت الہی نے افراد کی طرح جماعتوں کی زندگی و قیام کے لیے بھی ایک خاص نظام مقرر کردیا ہے اور اسی کے مطابق ایک جماعت کی جگہ دوسری جماعت سے، اور ایک قوم کی زندگی دوسری قوم کی زندگی سے ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ قرآن کہتا ہے افراد کے نظام حیات کی طرح جماعات کا نظام حیات بھی جدوجہد، سعی و طلب اور فکر و عمل کی صلاحیت کا نظام ہے اور یہاں بھی بقائے انفع کا قانون کام کر رہا ہے۔ یعنی وہی جماعت کشمکش حیات میں باقی رہتی ہے جو دنیا کے لیے انفع ہو۔ جو انفع نہیں وہ چھانٹ دی جاتی ہے۔ پس جو جماعت اس قانون فطرت کے مطابق اپنے کو زندگی و بقا کا اہل ثابت نہیں کرے گی ضروری ہے کہ اس کی جگہ کسی دوسری جماعت کو مل جائے اور یہی استبدال اقوام ہے۔