قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ
اہل کتاب میں سے جن لوگوں کا یہ حال ہے کہ نہ تو خدا پر (سچا) ایمان رکھتے ہیں نہ آخرت کے دن پر، نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے (ان کی کتاب میں) حرام ٹھہرا دیا ہے اور نہ سچے دین ہی پر عمل پیرا ہیں تو (مسلمانو) ان سے (بھی) جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اپنی خوشی سے جزیہ دینا قبول کرلیں اور حالت ایسی ہوجائے کہ ان کی سرکشی ٹوٹ چکی ہو۔
آیت (٢٩) میں مشرکین عرب کی طرح عرب کے یہودیوں اور شام کے عیسائیوں کے خلاف بھی جنگ کا حکم دیا ہے اور یہی آیت جزیہ کے باب میں اصل و بنیاد ہے، اس کی تشریح سورت کے آخری نوٹ میں ملے گی۔ چونکہ سلسلہ بیان اہل کتاب کی طرف متوجہ ہوگیا تھا اس لیے آیت (٢٥) تک ان کی اعتقادی اور عملی گمراہیوں کے اصول و مبادی واضح کیے ہیں اور دعوت قرآنی کی دائمی فتح مندی کی بشارت دی ہے ان کی ضروری تشریح بھی سورت کے آخری نوٹ میں ملے گی۔ چونکہ اب خانہ کعبہ اور حج کا معاملہ جاہلیت کی تمام آلودگیوں سے پاک ہوگیا تھا اس لیے ضروری تھا کہ جاہلیت کی اس جاہلانہ رسم کا بھی ازالہ کردیا جاتا جس نے حج کا زمانہ مشتبہ کردیا تھا اور مہینوں کے حساب کا عرب میں کوئی معیار قائم نہیں رہا تھا۔ آیت (٣٦) اور (٣٧) میں اسی بات کا اعلان کیا ہے۔ مزید تشریح کے لیے سورت کا آخری نوٹ دیکھو۔ اوپر گزر چکا ہے کہ اس سورت کی بقیہ آیتیں غزوہ تبوک کے متعلق نازل ہوئی تھیں، چنانچہ یہاں سے لے کر آخر تک اسی غزوہ کا بیان ہے اور جابجا موعظت و ارشاد کے مختلف اطراف و متعلقات بھی نمایاں ہوتے جاتے ہیں۔ تبوک مدینہ اور دمشق کے درمیان ایک مقام کا نام ہے جس کا فاصلہ آج کل مدینہ سے چھ سو دس کلو میٹر حساب کیا گیا ہے۔ ٩ ہجری میں پیغمبر اسلام کو خبر ملی کہ قیصر روم نے یعنی قسطنطنیہ کی مشرقی رومی حکومت نے مدینہ پر حملہ کا حکم دے د یا ہے اور عرب کے عیسائی قبائل بھی شامل ہوگئے ہیں۔ یہ مسلمانوں کے لیے پہلا موقع تھا کہ عرب سے باہر کی ایک سب سے بڑی طاقتور شہنشاہیت آمادہ پیکار ہوئی تھی اس لیے ضروری تھا کہ بروقت مدافعت کا پورا سامان کیا جاتا۔ چنانچہ پیغمبر اسلام نے تیاری اور کوچ کا اعلان کردیا۔ لیکن اگر ایک طرف ضرورت ناگزیر تھی تو دوسری طرف وقت کی ساری باتیں ناموافق ہورہی تھیں۔ مسلمان چند ماہ پہلے جنگ حنین و طائف کی لڑائی میں چکنا چور ہوچکے تھے اور اس سے پہلے فتح مکہ کا معاملہ پیش آچکا تھا، پھر اچانک مسلمانوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تھی اور چونکہ مالی وسائل محدود تھے اور باہمی اشتراک و معانوت کی زندگی تھی اس لیے تنگی و عست سب پر چھائی ہوئی تھی۔ پھر موسم بڑی ہی گرمی کا تھا اور فصل کاٹنے کا وقت سر پر آگیا تھا۔ نیز سفر ملک کے اندر نہ تھا اس سے باہر چودہ مرحلوں کا تھا، ان سب باتوں نے مل جل کر مسلمانوں کے لیے بڑی مشکلیں پیدا کردیں اور قدرتی طور پر ان کے قدم رک رک کر اٹھنے لگے۔ حالت بلاشبہ مجبوری کی تھی لیکن جب دفاع ملت کی گھڑی آجائے تو اس طرح کی کوئی مجبوری مجبوری تسلیم نہیں کی جاسکتی اور ادائے فرض کی راہ بہرحال آسانیوں اور راحتوں کی راہ نہیں ہے۔ اس میں مشکلیں اور مصیبتیں جھیلنی ہی پڑیں گی۔ البتہ مصیبتیں عارضی ہوں گی اور نتائج کی کامرانیاں دوامی۔ چنانچہ ان آیات میں مسلمانوں کو اسی حقیقت کی تقلین کی گئی ہے۔ مومنین صادقین نے اس دعوت کا کیا جواب دیا؟ اور ساری باتوں کے ناموافق ہونے پر بھی کسی جوش و سرگرمی کے ساتھ اٹھے؟ اس کا جواب تاریخ سے مل سکتا ہے۔ مختصر لفظوں میں یہ ہے کہ تیس ہزار مسلمانوں نے پیغمبر اسلام کے ساتھ کوچ کیا تھا۔ اور انفاق مال کی فدا کاریوں کا یہ حال تھا کہ اگر ایک طرف حضرت عثمان نے نو سو اونٹ پیش کردیے تھے تو دوسری طرف ابو عقیل انصاری نے رات بھر ایک کھیت میں آب پاشی کر کے دو سیر چھوہارے مزدوری میں حاصل کیے تھے اور وہ لاکر اللہ کے رسول کے قدموں پر رکھ دیے تھے۔ اسی فوجی تیاری کا یہ واقعہ ہے کہ حضرت ابوبکر نے اپنا تمام مال و متاع پیش کردیا تھا۔ حتی کہ کرتے کی گھنڈیاں بھی توڑ کر شامل کردی تھیں، اور جب اللہ کے رسول نے پوچھا تھا : ما ابقیت لاھلک بیوی بچوں کے لیے کیا چھوڑ آئے؟ تو اس پیکر صدق و وفا نے جواب دیا تھا اللہ ورسولہ۔ چونکہ اس فوج کی تیاری بڑی ہی تنگی و افلاس کی حالت میں ہوئی تھی اس لیے جیش عسرت کے نام سے مشہور ہوئی۔