يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا ۚ وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاءَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
مسلمانو ! حقیقت حال اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مشرک نجس ہیں (یعنی شرک نے ان کے دلوں کی پاکی سلب کرلی ہے) پس چاہیے کہ اب اس برس کے بعد سے (٩ ہجری کے بعد سے) مسجد حرام کے نزدیک نہ آئیں اور اگر تم کو (ان کی آمد و رفت کے بند ہوجانے سے) فقر و فاقہ کا اندیشہ ہو (کہ وہ ہر طرح کی ضروری چیزیں ہیں باہر سے لاتے اور تجارت کرتے ہیں) تو گھبراؤ نہیں، اللہ چاہے گا تو عنقریب تمہیں اپنے فضل سے تونگر کردے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔
آیت (٢٨) میں اسی حکم کا ذکر ہے جو اوپر گزر چکا ہے۔ یعنی آئندہ سے کوئی مشرک اس عبادت گاہ میں جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے خدائے واحد کی پرستش کے لیے بنائی تھی داخل نہ ہوسکے گا اور یہ مقام امت مسلمہ کے لیے مرکز ہدایت بن کر رہے گا جیسا کہ فی الحقیقت اسے ہونا تھا۔ اس آیت میں مشرکوں کے نجس ہونے سے مقصود ان کی قلبی نجاست ہے نہ کہ جسمانی، کیونکہ اسلام کسی انسان کے جسم کو ناپاک نہیں قرار دیتا اور ہر انسان کو انسان ہونے کے لحاظ سے ایک درجہ پر رکھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے چھوت چھات کی ہر قسم اور ہر شکل کو ناجائز قرار دیا ہے۔ خود پیغمبر اسلام کا یہودیوں اور مشرکوں سے ہر طرح کی معاشرت رکھنا، ایک ساتھ کھانا پینا، ان کی دعوتوں میں جانا اور انہیں دعوتوں میں بلانا حتی کہ انہیں مسجد کے اندر ٹھہرانا ثابت ہے۔ بالاتفاق یہ حکم صرف خانہ کعبہ سے تعلق رکھتا ہے۔ عام مساجد میں غیر مسلموں کے لیے کوئی شرعی روک نہیں۔ چنانچہ پیغمبر اسلام نے یمن کے عیسائیوں اور طائف کے مشرکوں کو اپنی مسجد میں ٹھہرایا تھا۔