سورة التوبہ - آیت 24

قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) مسلمانوں سے کہہ دے اگر ایسا ہے کہ تمہارے باپ تمہارے بیٹے تمہارے بھائی تمہاری بیویاں تمہاری برادری تمہارا مال جو تم نے کمایا ہے تمہاری تجارت جس کے مندا پڑجانے سے ڈرتے ہو، تمہارے رہنے کے مکانات جو تمہیں اس قدر پسند ہیں یہ ساری چیزیں تمہیں اللہ سے اس کے رسول سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارہ ہیں تو (کلمہ حق تمہارا محتاج نہیں) انتطار کرو، یہاں تک کہ جو کچھ خدا کو کرنا ہے وہ تمہارے سامنے لے آئے اور اللہ (کا مقررہ قانون ہے کہ وہ) فاسقوں پر ( کامیابی و سعادت کی) راہ نہیں کھولتا۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (٢٤) مہمات مواعظ میں سے ہے اور اس باب میں قطعی ہے کہ اگر حب ایمانی اور غیر ایمانی میں مقابلہ ہوجائے تو مومن وہ ہے جس کی حب ایمانی پر دنیا کی کوئی محبت اور علاقہ بھی غالب نہ آسکے۔ یہاں آٹھ چیزوں کا ذکر ہے اور اگر غور کرو گے تو ایک متمدن زندگی کے تمام علائق ان میں آگئے ہیں، نیز جس ترتیب سے ذکر کیا ہے علائق کی گیرائیوں کی قدرتی ترتیب یہی ہے۔ فرمایا انسان کی مدنی زندگی کی الفتوں کے بڑے رشتے یہی ہیں اور اپنی جگہ سب مطلوب و ضروری ہیں لیکن اگر محبت ایمانی میں اور ان میں مقابلہ ہوجائے تو پھر مومن وہ ہے جس پر ان تمام الفتوں میں سے کسی الفت کا بھی جادو چل نہ سکے۔ اور کوئی علاقہ بھی اسے اتباع حق سے روک نہ سکے۔ غور کرو قرآن فطرت انسانی کی کمزوریوں کا کس طرح کھوج لگاتا ہے؟ فرمایا اور تجارت جس کے مندا پڑجانے کا تمہیں ڈر لگا رہتا ہے یعنی عزائم و مقاصد کی راہ میں جب کبھی قدم اٹھایا جائے گا تو ناگزیر ہے کہ صورت حال میں انقلاب ہو اور جب انقلاب ہوگا خواہ جنگ کی صورت میں ہو، خواہ کسی دوسری صورت میں تو عارضی طور پر کاروبار ضرور بگڑے گا، مال و جائیداد کے لیے خطرات ضرور پیدا ہوں گے اور یہی بات مال و دولت کے پرستاروں پر ہمیشہ شاق گزرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ہمارا کاروبار خراب ہوجائے گا اور نہیں جانتے کہ اگر راہ حق میں استقامت دکھائیں تو جو کچھ خراب ہوگا وہ بہت تھوڑا ہوگا، اور پھر جو کچھ بنے گا وہ بہت زیادہ ہوگا۔ وان اللہ عندہ اجر عظیم۔ محبت ایمانی کی اس آزمائش میں صحابہ کرام جس طرح پورتے اترے اس کی شہادت تاریخ نے محفوظ کرلی ہے اور محتاج بیان نہیں بلاشائبہ مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں انسانوں کے کسی گروہ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے سارے دل اور اپنی ساری روح سے ایسا عشق نہیں کیا ہوگا جیسا صحابہ نے اللہ کے رسول سے راہ حق میں کیا۔ انہوں نے اس محبت کی راہ میں سب کچھ قربان کردیا جو انسان کرسکتا ہے اور پھر اسی کی راہ سے سب کچھ پایا جو انسانوں کی کوئی جماعت پاسکتی ہے۔ لیکن آج ہمارا حال کیا ہے؟ کیا ہم میں سے کسی کو جرات ہوسکتی ہے کہ یہ آیت سامنے رکھ کر اپنے ایمان کا احتساب کرے؟