بَرَاءَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ
(مسلمانوں) جن مشرکوں کے ساتھ تم نے (صلح و امن کا) معاہدہ کیا تھا اب اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بری الذمہ ہونے کا ان کے لیے اعلان ہے۔
کوئی شخص کتنے ہی مخالفانہ ارادے سے مطالعہ کرے، لیکن تاریخ اسلام کے چند واقعات اس درجہ واضح اور قطعی ہیں کہ ممکن نہیں ان سے انکار کیا جاسکے، ازاں جملہ یہ کہ جو جماعتیں پیغمبر اسلام کی مخالف تھیں ان کے تمام کام اول سے لے کر آخر تک ظلم و تشدد، دغا و فریب وحشت و خونخواری پر مبنی رہے اور پیغمبر اسلام اور انن کے ساتھیوں نے جو کچھ کیا اس کا ایک ایک فعل صبر و تحبل، راستی و دیانت اور عفو و بخشش کا اعلی سے اعلی نمونہ تھا۔ مظلومی میں صبر، مقابلہ میں عزم، معاملہ میں راست بازی طاقت و اختیار میں درگزر تاریخ انسانیت کے وہ نوادر ہیں جو کسی ایک زندگی کے اندر اس طرح کبھی جمع نہیں ہوئے۔ قریش مکہ نے جس طرح ظلم و تعدی میں کمی نہیں کی اسی طرح بدعہدی میں بھی اپنی مثال چھوڑ گئے، آخری معاملہ حدیبیہ کی صلح کا تھا، اس میں ایک طرف مسلمان اور ان کے حلیف تھے، دوسری طرف قریش اور ان کے حلیف، مسلمانوں کے ساتھ قبیلہ خزاعہ شریک ہوا۔ قریش کے ساتھ بنو بکر، صلح کی بنیادی شرط یہ تھی کہ دس برس تک دونوں فریق صلح و امن پر قائم رہیں گے۔ لیکن ابھی دو برس بھی نہیں گزرے تھے کہ بنو بکر نے خزاعہ پر حملہ کردیا اور قریش نے ان کی مدد کی حتی کہ خود سہیل بن عمرو حملہ میں شریک ہوا جس نے معاہدہ حدیبیہ پر دستخط کیے تھے۔ بنو خزاعہ نے خانہ کعبہ میں پناہ لی اور خدا کے نام پر امان مانگی تھی اس پر بھی بے دریغ قتل کیے گئے تھے۔ چالیس آدمی بچ کر مدینہ پہنچے اور پیغمبر اسلام کو اپنا حال زار سنایا۔ اب معاہدہ کی رو سے پیغمبر اسلام کا فرض ہوگیا کہ قریش کی عہد شکنی برداشت نہ کریں، چنانچہ دس ہزار مسلمانوں کے ساتھ انہوں نے کوچ کیا اور بغیر کسی قابل ذکر خونریزی کے مکہ کی فتح مبین ظہور میں آگئی۔ فتح کے بعد ٩ ہجری میں اس سورت کی ابتدائی آیتیں تیس یا چالیس تک نازل ہوئیں اور پیغمبر اسلام نے حضرت ابوبکر اور حضرت علی کو ذیقعدہ میں مکہ بھیجا کہ حج کے موقع پر بطور اعلان عام کے یہ آیات مشتہر کردیں یعنی : ١۔ جن جماعتوں نے بدعہدی کی ان کے ساتھ اب کوئی معاہدہ نہیں رہا، تاہم اچانک ان پر حملہ نہیں کیا جاتا، چار ماہ کی مہلت دی جاتی ہے جو حج کے دن سے شروع ہوگی اور ١٠ ربیع الآخر کو ختم ہوگی۔ اس عرسہ میں انہیں نقل و حرکت کا پورا امن حاصل ہوگا۔ لیکن اس کے بعد جنگ کی حالت تصور کی جائے گی۔ ب۔ لیکن جن جماعتوں نے بد عہدی نہیں کی تو ان کا معاہدہ اپنی جگہ پر قائم ہے۔ ج۔ حرم کعبہ اب شرک کی تمام آلودگیوں سے پاک کردیا گیا ہے جو مشرکین عرب نے پیدا کردی تھیں، پس آئندہ یہ عبادتگاہ صرف اہل توحید و ایمان کے لیے ہوگئی، کوئی مشک آئندہ سال سے اس کا قصد نہ کرے۔ (آیت ٢٨) سورت کا بقیہ حصہ بھی ٩ ہجری ہی میں غزوہ تبوک کے اثنا میں اور اس کے بعد نازل ہوا تھا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہاں لڑائی کا جو حکم دیا گیا ہے اس کا تعلق صرف ان مشرک جماعتوں سے تھا جو عرب میں دعوت اسلام کی پامالی کے لیے لڑ رہی تھیں نہ کہ دنیا جہاں کے تمام مشرکوں کے لیے۔ چنانچہ اول سے لے کر آخر تک خطاب خاص جماعتوں سے ہے اور صاف لفظوں میں واضھ کردیا ہے کہ ان جماعتوں نے کس طرح عہد شکنی کی اور کس طرح خود ہی جنگ کے اعادہ کا باعث ہوئے۔ نیز ظلم و جنگ کی ابتدا کرنے والے بھی وہی ہیں۔