وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ
اور (مسلمانو) جہاں تک تمہارے بس میں ہے قوت پیدا کر کے اور گھوڑے تیار رکھ کر دشمنوں کے مقابلہ کے لیے اپنا سازو سامان مہیا کیے رہو کہ اس طرح مستعد رہ کر تم اللہ کے (کلمہ حق کے) اور اپنے دشمنوں پر اپنی دھاک بٹھائے رکھو گے۔ نیز ان لوگوں کے سوا اوروں پر بھی جن کی تمہیں خبر نہیں۔ اللہ انہیں جانتا ہے۔ اور (یاد رکھو) اللہ کی راہ میں (یعنی جہاد کی تیاری میں) تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا پورا مل جائے گا۔ ایسا نہ ہوگا کہ تمہاری حق تلفی ہو۔
آیت (٦٠) میں فرمایا جہاں تک تمہارے بس میں ہے، کیونکہ یہ تو ممکن نہیں کہ کوئی جماعت اس طرح کا سروسامان جنگ مہیا کرسکے جو ہر اعتبار سے مکمل ہو۔ پس معلوم ہوا مسلمانوں کو اس بارے میں جو کچھ حکم دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے مقدور کے مطابق جو کچھ کرسکتے ہیں کریں اور ادائے فرض کے لیے آمادہ ہوجائیں، یہ بات نہیں ہے کہ جب تک دنیا جہان کے ہتھیار اور ہر قسم کے سازو سامان مہیا نہ ہوجائیں اس وقت تک بے بسی کا عذر کرتے رہیں اور فرض دفاع سے بے فکر ہوجائیں۔ اگر مسلمانوں نے اس آیت کی روح کو سمجھا ہوتا تو اس اپاہج پنے میں مبتلا نہ ہوتے جو ڈیڑھ سو برس سے تمام مسلمانان عالم پر طاری ہے۔ چونکہ جنگ کی تیاری بغیر مال کے نہیں ہوسکتی تھی اس لیے اس کے بعد کی آیت میں انفاق فی سبیل اللہ پر زور دی، اگر اس انفاق کی حقیقت آج مسلمان صحیح طور پر سمجھ لیں تو ان کی ساری مصیبتیں ختم ہوجائیں۔