ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۙ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
(اور) یہ بات اس لیے ہوئی کہ اللہ کا مقررہ قانون ہے کہ جو نعمت وہ کسی گروہ کو عطا فرماتا ہے اسے پھر کبھی نہیں بدلتا جب تک کہ کود اسی گروہ کے افراد پر اپنی حالت نہ بدل لیں اور اس لیے بھی اللہ (سب کی) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے۔
آیت (٥٣) اور اس کی ہم معنی آیات نے قطعی لفظوں میں واضح کردیا کہ قرآن کے نزدیک اقوام و جماعات کے عروج و زوال اور موت و حیات کا قانون کیا ہے؟ فرمایا یہ خدا کی مقررہ سنت ہے کہ جب وہ کسی گروہ کو اپنی نعمتوں سے سرفراز کرتا ہے تو اس میں کبھی تغیر نہیں کرتا جب تک کہ خود اس گروہ کے افراد خود اپنی حالت متغیر نہیں کردیتے۔ چنانچہ دنیا کی پوری تاریخ ہمیں اس بارے میں جو کچھ بتلا رہی ہے اس کی حقیقت بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ہر قوم خود ہی اپنی زندگی کا گہوارہ بناتی ہے اور پھر خود ہی اپنے ہاتھوں سے اپن قبر بھی کھودتی ہے۔ اسی سورت کی آیت (٢٢) میں فرمایا تھا کہ بدترین چارپائے وہ انسان ہیں جو قپنی عقل و حواس سے کام نہیں لیتے، یہاں آیت (٥٥) میں فرمایا بدترین چار پائے وہ انسان ہیں جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی۔ اس سے معلوم ہوا قرآن کے نزدیک عقل و حواس سے ٹھیک طرح کام نہ لینا اور اندھوں کی طرح چلنا انسانیت کے درجہ سے گرجانا ہے اور وہ کہتا ہے کفر اسی اندھے پن کا نتیجہ ہے، پس ایمان کی راہ عقل و بصیرت کی راہ ہوئی اور کفر اندھے پن کا دوسرا نام ہوا۔