وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَّكُمْ ۖ فَلَمَّا تَرَاءَتِ الْفِئَتَانِ نَكَصَ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ وَقَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكُمْ إِنِّي أَرَىٰ مَا لَا تَرَوْنَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ ۚ وَاللَّهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ
اور (پھر) جب ایسا ہوا کہ شیطان نے ان کے کرتوت ان کی نگاہوں میں خوشنما کر کے دکھا دیئے تھے اور کہا تھا آج ان لوگوں میں کوئی نہیں جو تم پر غالب آسکے اور میں تمہارا پشت پناہ ہوں مگر جب دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو الٹے پاؤں واپس ہوا اور لگا کہنے : مجھے تم سے کچھ سرور کار نہیں، مجھے وہ بات دکھائی دے رہی ہے جو تم نہیں دیکھتے، میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ (بدعملیوں کی پاداش میں) بہت سخت سزا دینے والا ہے۔
آیت (٤٨) میں شیطان سے مقصود سراقہ بن مالک ابن جعشم ہے جس نے مشرکین مکہ کا ساتھ دیا لیکن لڑائی شروع ہوتے ہی بھاگ گیا۔ چنانچہ مکہ کے لوگ کہتے تھے سراقہ نے ہمیں ہرا دیا۔ جب بدر میں مٹھی بھر بے سروسامان مسلمان جنگ کے لیے نکلے تو منافق اور کچے دل کے آدمی اس کی کوئی توجیہ نہیں کرسکے بجز اس کے کہیں انہیں ان کے دین کے نشہ نے مغرور کردیا ہے،۔ بات اگرچہ بطور طعنہ کے کہی گئی تھی لیکن ایک لحاظ سے غلط بھی نہ تھی، بلاشبہ یہ دین ہی کا نشہ تھا لیکن نشہ باطل نہ تھا، یہی وجہ ہے قرآن کی معجزانہ بلاغت نے آیت (٤٩) میں ان کا قول نقل کر کے رد نہیں کیا بلکہ صرف یہ کہا من یتوکل علی اللہ فھو حسبہ الخ۔