قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُوا إِن يَنتَهُوا يُغْفَرْ لَهُم مَّا قَدْ سَلَفَ وَإِن يَعُودُوا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ
(اے پیغمبر) جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تم ان سے کہہ دو اگر وہ (اب بھی) باز آجائیں تو جو کچھ گزر چکا معاف کردیا جائے لیکن اگر وہ پھر (ظلم و جنگ کی طرف) لوٹے تو ( اس بارے میں) پچھلوں کا طور طریقہ اور اس کا نتیجہ گزر چکا ہے (اور ہی انہیں بھی پیش آکر رہے گا)
آیت (٣٨) عفو و بخشش اور دعوت امن و صلح کی انتہا ہے۔ اس سے اندازہ کرو کہ دعوت اسلام کا اپنے دشمنوں کے ساتھ کیسا طرز عمل رہا اور کس طرح مجبور و بے ہو کر اسے میدان جنگ میں جمنا پڑا؟ سورت کے ابتدا میں فرمایا تھا کہ مال غنیمت اللہ اور اس کے رسول کا ہے، یعنی حکومت کا ہے، اب آیت (٤١) میں اس کی تقسیم کا طریقہ بتلا دیا، اللہ اور اس کے سول کے حصہ سے مقصود یہ ہے کہ دین و ملت کے مصالح کے لیے ایک خاص رقم رکھی جائے، اسی میں سے پیغمبر اسلام کو جب تک زندہ رہیں ضروری مصارف ملیں، ان کے بعد ائمہ مسلمین کو۔ اس آیت اور اس کی ہم معنی آیات نے واضح کردیا کہ قرآن کے نزدیک حکومت (اسٹیٹ) یتیموں، مسکینوں اور مصیبت زدوں کی خبر گیری کے لیے ذمہ داری ہے اور حکومت کے خزانہ کا ایک لازمی مصرف قوم کے ان افراد کی اعانت ہے۔