هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا ۖ فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ ۖ فَلَمَّا أَثْقَلَت دَّعَوَا اللَّهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ
وہی (تمہارا پروردگار) ہے جس نے اکیلی جان سے تمہیں پیدا کیا (یعنی تمہارے قبیلوں اور گروہوں کا مورث اعلی ایک فرد واحد تھا) اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنا دیا (یعنی مرد ہی کی نسل سے عورت بھی پیدا ہوتی ہے) تاکہ وہ اس کی رفاقت میں چین پائے، پھر جب ایسا ہوتا ہے کہ مرد عورت کی طرف ملتفت ہوا (١) تو عورت کو حمل رہ جاتا ہے۔ پہلے حمل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے اور وہ وقت گزار دیتی ہے، پھر جب بوجھل ہوجاتی ہے (اور وہ وضع حمل کا وقت قریب آلگتا ہے) تو مرد اور عورت دونوں اللہ کے حضور دعا مانگتے ہیں کہ ان کا پرورش کرنے والا ہے : خدایا ! ہم دونوں تیرے شکر گزار ہوں گے اگر ہمیں ایک تندرست بچہ عطا فرما دے۔
آیت (١٨٩) میں مشرکوں کی یہ گمراہی واضح کی ہے کہ اپنی احتیاجوں اور مصیبتوں میں خدا سے التجائیں کرتے ہیں لیکن جب مطلب حاصل ہوجاتا ہے تو اسے ان آستانوں اور معبودوں کی بخشش سمجھنے لگتے ہیں جو انہوں نے ٹھہرا رکھے ہیں۔ چنانچہ مشرکین عرب مصیبتوں میں خدا ہی کو پکارتے تھے۔ لیکن جب مصیبت ٹل جاتی تو اپنے بنائے ہوئے آستانوں پر نذریں چڑھاتے اور اپنی اولاد کو ان کی طرف منسوب کرتے اور کہتے یہ انہی کی بخشش ہے کہ ہمیں اولاد ملی۔ اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ شرک کی قسموں میں سے ایک قسم شرک فی التسمیہ ہے۔ یعنی غیر خدا کی طرف منسوب کر کے نام رکھنا۔ چنانچہ مشرکین عرب عبدالعزی، عبد الشمس وغیرہا نام رکھتے تھے اور افسوس ہے کہ مسلمان بھی اب اسی طرح کے نام رکھنے لگے ہیں۔ (١) تغاشاھا کے معنی یہ ہیں کہ جب وہ ڈھانپ لیتا ہے اور یہ عربی میں اس بات کے لیے کنایہ ہے جسے ہم نے اردو میں ملتفت ہونے سے ادا کیا ہے۔