وَأُمْلِي لَهُمْ ۚ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ
ہم انہیں ڈھیل دیتے ہیں (یعنی ہمارا قانون جزا ایسا ہے کہ نتائج بتدریج ظہور میں آتے ہیں اور مہلتوں پر مہلتیں ملتی رہتی ہیں، اور ہماری مخفی تدبیر بڑی ہی مضبوط ہے۔
آیت (١٨٣) میں قانون امہال کی طرف اشارہ ہے اور مفسدین مکہ کی نسبت خبر دی ہے کہ جزائے عمل کا قانون ان کی طرف سے غافل نہیں ہے۔ وہ بتدریج اس نتیجہ تک پہنچ کر رہیں گے جو انکار و سرکشی کا لازمی نتیجہ ہے۔ چنانچہ دنیا نے دیکھ لیا کہ چند برسوں کے اندر قریش مکہ کی ساری طاقت نابود ہوگئی۔ (قانون امہال کے لیے دیکھو تفسیر فاتحہ) داعیان حق کو ہمیشہ منکروں نے مجنون کہا ہے۔ پیغبر اسلام کو بھی اشرار مکہ مجنون کہا کرتے تھے۔ آیت (١٨٤) اور (١٨٥) میں فرمایا یہ منکر نہ تو فکر سے کام لیتے ہیں نہ مشاہدہ و نظر سے، اگر فکر سے کام لیں تو پیغمبر اسلام کی زندگی جو انہی میں پیدا ہوا اور انہی میں سے ہے سچائی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ اگر نظر سے کام لیں تو آسمان و زمین کا ایک ایک ذرہ خدا کی ہستی اور اس کے مقررہ قوانین خلقت کی شہادت دے رہا ہے۔ غور کرو۔ قرآن کا طریق تلقین و استدلال کیا ہے اور مفسرین نے اسے کیا سے کیا بنا دیا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھو تفسیر فاتحہ)