وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ
اور کتنے ہی جن اور انسان ہیں جنہیں ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیا (یعنی بالآخر ان کا ٹھکانا جہنم ہونے والا ہے) ان کے پاس عقل ہے مگر اس سے سمجھ بوجھ کا کام نہیں لیتے۔ آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے، کان ہیں مگر ان سے سننے کا کام نہیں لیتے۔ وہ (عقل و حواس کا استعمال کھو کر) چارپایوں کی طرح ہوگئے۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ کھوئے ہوئے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو یک قلم غفلت میں ڈوب گئے ہیں۔
قرآن نے جا بجا یہ حقیقت واضح کیے کہ ہدایت و سعادت کی راہ عقل و تفکر کی راہ ہے اور گمراہی و شقاوت کا سرچشمہ جہل و کوری اور حواس و تفکر کو بیکار کردینا ہے۔ جو لوگ خدا کی دی ہوئی عقل سے کام نہیں لیتے یا ہوائے نفس سے اس درجہ مغلوب ہوجاتے ہیں کہ ذہن و ادراک کی قوتیں بیکار ہوجاتی ہیں وہ کبھی ہدایت نہیں پاسکتے (مزید تفصیل کے لیے تفسیر فاتحہ دیکھین چاہیے) چنانچہ یہاں انسان کی دماغی شقاوت کی اس حالت کی طرف اشارہ کیا ہے جب بڑے بوڑھوں کے تقلیدی اثرات سے ہوائے نفس کے غلبہ سے یا ذاتی طمع و بغض سے وہ اس درجہ مغلوب ہوجاتا ہے کہ عقل و حواس کی ساری روشنیاں اس کے لیے بیکار ہوجاتی ہیں۔ قرآن کہتا ہے ایسا ہی گروہ جہنمی گروہ ہے۔ یہاں سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ معرفت حقیقت کی دو ہی راہیں ہیں : فکر اور نظر۔ فکر یہ کہ خدا کی دی ہوئی عقل سے کام لیں اور اپنے اندر سوچیں سمجھیں۔ نظر یہ کہ کارخانہ ہستی کے عجائب و دقائق کا مشاہدہ کریں اور اس سے بصیرت حاصل کریں۔ جو شخص ان دونوں باتوں سے محروم ہے وہ اندھا بہرا ہے، اور گمراہی سے لوٹنے والا نہیں۔