فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَظْلِمُونَ
لیکن پھر ایسا ہوا کہ جو لوگ ان میں ظلم و شرارت کی راہ چلنے والے تھے انہوں نے خدا کی بتلائی ہوئی بات بدل کر ایک دوسری ہی بات بنا ڈالی (یعنی جس بات کا حکم دیا گیا تھا اس سے بالکل الٹی چال چلی) پس ہم نے آسمان سے ان پر عذاب بھیجا اس ظلم کی وجہ سے جو وہ کیا کرتے تھے۔
(ع) بنی اسرائیل کی یہ گمراہی کہ دین کے حکموں پر سچائی کے ساتھ عمل نہیں کرتے تھے اور شرعی حیلے نکال کر ان کی تعمیل سے بچنا چاہتے تھے۔ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ سبت کا مقدس دن تعطیل کا دن ہے اس دن شکار نہ کرو۔ لیکن ایک گروہ نے یہ حیلہ نکالا کہ سمندر کے کنارے گڑھے کھود لیے، جب جوار کے بعد پانی اتر جاتا تو گڑھے کے اندر کی مچھلیاں پکڑ لیتے اور کہتے یہ مچھلیاں خود آگئیں، شکار نہیں کی گئیں۔ بندر ہوجانے کا مطلب ہے؟ ان کی صورتیں بندروں کی سی ہوگئی تھیں یا دل؟ ائمہ تفسیر میں سے مجاہد کا قول ہے مسخت قلوبھم ان کے دل مسخ ہوگئے تھے۔ (ابن کثیر) (ف) گمراہوں کی ہدایت کی طرف سے کتنی ہی مایوس ہو لیکن اہل حق کا فرض ہے کہ موعظت سے باز نہ رہیں، کیونکہ اول تو یہ ایک فرض ہے اور ادائے فرض میں نتیجہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ثانیا کون کہہ سکتا ہے کہ ہدایت قطعا موثر نہ ہوگی؟ ہوسکتا ہے کہ کسی کے دل کو کوئی بات لگ جائے۔ چنانچہ اسی لیے اہل حق نے کہا معذرۃ الی ربکم ولعلھم یتقون تاکہ اللہ کے حضور معذرت کرسکیں اور اس لیے بھی کہ شاید لوگ باز آجائیں۔ سبحان اللہ قرآن کی معجزانہ بلاغت، پانچ چھ لفظوں کے اندر وہ سب کچھ کہہ دیا جو اس بارے میں کہا جاسکتا ہے۔