وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الْأَلْوَاحِ مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُوا بِأَحْسَنِهَا ۚ سَأُرِيكُمْ دَارَ الْفَاسِقِينَ
اور ہم نے موسیٰ کے لیے ان تختیوں میں ہر قسم کی باتیں لکھ دی تھیں، تاکہ (دین کے) ہر معاملہ کے لیے اس میں نصیحت ہو اور ہر بات الگ الگ واضح ہوجائے، پس (ہم نے کہا) اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑ لے اور اپنی قوم کو بھی حکم دے کہ اس کے پسندیدہ حکموں پر کار بند ہوجائے۔ وہ وقت دور نہیں کہ ہم نافرمانوں کی جگہ تمہیں دکھا دیں گے۔
(ج) آیت (١٤٥) کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے جن جن حکموں کی ضرورت تھی، وہ سب ان تختیوں کے احکام میں موجود تھے۔ تفصیلا لکل شیئ یعنی تمام باتیں الگ الگ کر کے بیان کردی تھیں۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا جہان کی ہر بات تشریح و تطویل کے ساتھ لکھ دی گئی تھی۔ یاد رہے کہ قرآن تفصیل کا لفظ اس مصلحہ معنی میں نہیں بولتا جو فن بیان و معانی میں بعد کو ٹھہرائے گئے اور جو اجمال کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے۔ اگر امام رازی کی نظر اس حقیقت پر ہوتی تو وہ اس بے کار کی زحمت سے بچ جاتے جو سورۃ فاتحۃ کی تفسیر لکھنے میں انہوں نے برداشت کی۔ چونکہ یہ تختیاں وحی الہی سے کندہ کی گئی تھیں، اس لیے خدا نے ان کی کتابت اپنی طرف منسوب کی اور کتب سماوی کی نسبت قرآن کا یہ عام اسلوب بیان ہے۔ تورات میں ہے کہ یہ دو تختیاں تھیں اور دونوں طرف کندہ کی ہوئی تھیں۔ (خروج : ١٤: ٣٢) (د) قرآن کا عام اسلوب بیان یہ ہے کہ خدا کے ٹھہرائے ہوئے قوانین و اسباب سے جو نتائج پیدا ہوتے ہیں انہیں براہ راست خدا کی طرف نسبت دیتا ہے،۔ مثلا اس کا ایک قانون یہ ہے کہ جو لوگ سمجھ بوجھ سے کام لینے کی جگہ اپنے بڑے بوڑھوں کی اندھی تقلید کرنے لگتے ہیں اور اسی پر اڑے رہتے ہیں رفتہ رفتہ ان کی عقلیں ماری جاتی ہیں اور سمجھ بالکل الٹی ہوجاتی ہے۔ کتنی ہی صاف بات کہی جائے، ان کی سمجھ میں نہیں آئے گی، کتنی ہی ان کی بھلائی چاہو وہ اور زیادہ مخالفت کریں گے۔ قرآن اس حالت کو یوں تعبیر کرے گا کہ خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی پس وہ سمجھتے نہیں۔ یعنی یہ صورت حال خدا کے ٹھہرائے ہوئے قانون کا قدرتی نتیجہ ہے۔ جب کبھی کوئی یہ چال چلتا ہے خدا کا مقررہ قانون موثر ہو کر اسے اس حالت میں پہنچا دیتا ہے۔