فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ إِلَىٰ أَجَلٍ هُم بَالِغُوهُ إِذَا هُمْ يَنكُثُونَ
لیکن پھر جب ایسا ہوا کہ ہم نے ایک خاص وقت تک کے لیے کہ (اپنی سرکشیوں اور بدعملیوں سے) انہیں اس تک پہنچنا تھا عذاب ٹال دیا تو دیکھو اچانک وہ اپنی بات سے پھر گئے۔
آیت (١٣٥) میں فرمایا ایک خاص وقت تک کے لیے کہ انہیں اس تک پہنچنا تھا یعنی ایک آنے والا وقت تھا جس کی طرف وہ اپنے اعمال کے ذریعہ بڑھ رہے تھے، اور بالآخر پہنچنے والے تھے۔ یہ آنے والا وقت کونسا تھا؟ ان کے ظلم و فساد کا آخری نتیجہ کہ خدا کے قانون جزا نے اس طرح کے نتیجہ کے لیے جتنی مقدار فساد عمل کی ٹھہرا دی ہے جب وہ مہیا ہوگئی تو نتیجہ ظہور میں آگیا اور فرعون اور اس کا لشکر ہلاک ہوگیا۔ یہی ظہور نتائج کا وقت ہے جسے قرآن نے امتوں کی اجل سے تعبیر کیا ہے۔ چنانچہ اسی سورت کی آیت (٣٤) میں اس کی طرف اشارہ گزر چکا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر جماعت اپنے اعمال کے زریعہ ایک خاص نتیجہ تک پہنچتی رہتی ہے جو اس کی مقررہ اجل ہے، اگر اعمال نیک ہوتے ہیں تو یہ اجل فلاح کی ہوتی ہے، برے ہوتے ہیں تو ہلاکت کی ہوتی ہے۔ فرعون کی ہلاکت اور بنی اسرائیل کی وراثت ارض۔ قانون الہی یہ ہے کہ ظالم قومیں جن مظلوم قوموں کو حقیر کمزور سمجھتی ہیں ایک وقت آتا ہے کہ وہی شاہی و جہانداری کی وارث ہوجاتی ہیں۔