فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
غرض کہ (١) سچائی ثابت ہوگئی اور جو کچھ جادوگروں نے کرتب کیے تھے سب ملیا میٹ ہوئے۔
(١) جادوگروں کا بری طرح ہارنا، حضرت موسیٰ پر ایمان لانا، فرعون کا اسے سازش قرار دینا اور قتل و تعذیب کی دھمکی۔ سورۃ طہ میں ہے کہ یہ معاملہ مصریوں کے تہوار کے دن پیش آیا تھا اور مملکت کی تمام آبادی جمع تھی اور خود حضرت موسیٰ کی تجویز سے ایسا ہوا تھا۔ نیز یہ کہ مقابلہ سے پہلے حضرت موسیٰ نے جادوگروں کو نصیحت کی تھی اور وہ متاثر ہو کر آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے تھے لیکن چونکہ فرعون نے اس معاملہ کو قومی خطرہ کا رنگ دے دیا تھا اس لیے مقابلہ پر جمے رہے۔ انہوں نے آپس میں کہا موسیٰ ہمیں نکال کر ہمارے ملک پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ جب فرعون نے دیکھا تمام باشندگان ملک کے سامنے اسے شکست ہوئی اور جن جادوگروں پر بھروسہ کیا گیا تھا وہی ایمان لے آئے تو ڈرا، کہیں ایسا نہ ہو لوگ حضرت موسیٰ کے معتقد ہوجائیں، اس لیے جادوگروں پر مکرو سازش کا الزام لگایا۔ یعنی حضرت موسیٰ سے مل گئے ہیں، اسی لیے جان بوجھ کر اہیں فتح مند کرا دیا اور پھر فورا ان پر ایمان لے آئے۔ سچا ایمان اگرچہ ایک لمحہ کا ہو ایسی روحانی طاقت پیدا کردیتا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اسے مرعوب و مسخر نہیں کرسکتی۔ وہی جادوگر جو فرعون سے صلہ و نعام کی التجائیں کر رہے تھے ایمان لانے کے بعد معا ایسے بے پروا ہوگئے کہ سخت سے سخت جسمانی عذاب کی دھمکی بھی انہیں متزلزل نہ کرسکی۔ تفصیل سورۃ طہ میں ہے۔