وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ فَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اور (اسی طرح) مدین (١) کی بستی میں شعیب بھیجا گیا کہ انہی کے بھائی بندوں میں سے تھا، اس نے کہا : بھائیو ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، دیکھو تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل تمہارے سامنے آچکی ہے، پس چاہیے کہ ماپ تول پورا پورا کیا کرو، لوگوں کو (خریدو فروخت میں) ان کی چیزیں کم نہ دو، ملک کی درستی کے بعد (کہ دعوت حق کے قیام سے ظہور میں آرہی ہے) اس میں خرابی نہ ڈالو، اگر تم ایمان رکھتے ہو تو یقین کرو اسی میں تمہارے لیے بہتر ہے۔
(١) (ز) مدین کسی بستی کا نام نہیں۔ ایک قبیلہ کا نام تھا جو زیرہ نمائے سینا میں عرب سے متقصل آباد تھا، اسی میں حضرت شعیب کا ظہور ہوا۔ (ح) قرآن نے حضرت شعیب کی کوئی ایسی نشانی بیان نہیں کی جیسی دوسرے پیغمبروں کی بیان کی ہے اور جو متکلمین کی اصطلاح میں معجزہ کے لفظ سے تعبیر کی جاتی ہے۔ تاہم قرآن حضرت شعیب کی زبانی نقل کرتا ہے کہ واضح دلیل آچکی یہ دلیل واضح کیا تھی؟ حضرت شعیب کی تعلیم تھی جو راست بازی و عدالت کی راہ دکھاتی تھی، اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے نزدیک انبیاء علیہم السلام کی تعلیم بجائے خود دلیل بینہ اور حجت ہے، اور ضروری نہیں کہ اس کے ساتھ کوئی دوسری نشانی اور مصطلحہ معجزہ بھی ہو۔ (ط) ماپ تول کی درستی اور یہ اصل کہ خریدوفروخت میں جو جس کا حق ہو اسے پورا ملنا چاہیے انسانی معیشت کی وہ بنیادی صداقت ہے جس کی ہمیشہ نبیوں نے تلقین کی۔ (ی) حضرت شعیب نے کہا کم از کم صبر کرو اور نتیجہ دیکھ لو، لیکن منکر اس کے لیے بھی تیار نہ ہوئے۔