سورة البقرة - آیت 90

بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ أَن يَكْفُرُوا بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ بَغْيًا أَن يُنَزِّلَ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَىٰ غَضَبٍ ۚ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(افسوس ان کی شقاوت پر) کیا ہی بری قیمت ہے جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کا سودا چکایا ! انہوں نے اللہ کی بھیجی ہوئی سچائی سے انکار کیا، اور صرف اس لیے انکار کیا کہ وہ جس کسی پر چاہتا ہے اپنا فضل کردیتا ہے (اس میں خود ان کی نسل و جماعت کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ یہ لوگ اپنی بدعملیوں کی وجہ سے پہلے ہی ذلیل و خوار ہوچکے تھے، لیکن اس نئے انکار سے اور زیادہ ذلت و خواری کے سزاوار ہوئے) پس اللہ کا غضب بھی ایک کے بعد ایک ان کے حصے میں آیا اور اس کا قانون یہی ہے کہ انکار حق کرنے والوں کے لیے (ہمیشہ) رسوا کرنے والا عذاب ہوتا ہے

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

معیار نبوت : (ف2) بغی الجرح محاورہ ہے جس کے معنی ہیں ، زخم بگڑگیا ، بنی اسرائیل کے مرض انکار کو بھی بگڑے ہوئے زخم سے تشبیہ دی ہے یعنی ان کی ذہنیت ناقابل اصلاح ہے اور اچھے سے اچھا مرہم بھی ان کے ناسور کے لئے مفید نہیں ۔ اعتراض یہ تھا ان کا کہ کیوں نبوت کسی اسرائیلی کو نہیں ملی ؟ اور اس کے لئے مکہ کے ایک یتیم ونادار انسان کو کیوں منتخب کیا گیا کیا بنی اسرائیل کے گھرانے سے برکت اٹھ گئی ہے یا پھر کوئی اور سرمایہ دار اس کا مستحق نہ تھا ؟ قرآن حکیم نے ان آیات میں اس کا جواب یہ دیا کہ نبوت اللہ کا ایک فضل ہے ، یہ موہبت کبری ہے جو خاص حالات میں خاص اشخاص کو دی جاتی ہے ، اس میں کسب واکتساب کو اور جدوجہد کو کوئی دخل نہیں ، اسرائیلی جب اس بار امانت کے متحمل نہ رہے تو یہ امانت اسمعیل کے گھرانے کے سپرد کردی گئی اس میں تم اعتراض کرنے والے کون ہو ؟ یہ ضروری نہیں کہ انبیاء کا انتخاب سرمایہ داروں میں سے ہو ، تمہارے نزدیک تو دنیوی وجاہت قابل اعتنا ہے لیکن خدا کی نگاہ میں اس کی کوئی وقعت نہیں ، یہ درست ہے کہ انبیاء قوموں کو دین ودنیا کی نعمتوں سے مالا مال کرنے کے لئے مبعوث ہوتے ہیں لیکن خود دنیا میں ان کا بہت کم حصہ ہوتا ہے گو وہ روپیہ پیسہ نہیں رکھتے لیکن ایمان وتیقن کی گراں قدر پونجی ان کے پاس سب سے زیادہ ہوتی ہے ، وہ حوصلے کے بلند اور دل کے مطمئن ہوتے ہیں سیم وزر ان کے پاؤں چومتا ہے اور وہ کبھی روپے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ، اس لئے تمہارا محض اس بنا پر انکار کہ رسول بنی اسرائیل کے گھرانے میں پیدا نہیں ہوا اور یہ کہ وہ سرمایہ دار نہیں محض غیر معقول ہے ۔ حل لغات : مُصَدِّقًا: تصدیق کرنے والا ، یستفتحون ، مصدر استفتاح ، فتح طلب کرنا ، بَغْيًا: تمردوسرکشی ، مُهِينٌ: اھانۃ کے معنی ہوتے ہیں کمزور کردینے کے ۔ ہڈی توڑنے کے ۔ عَذَابٌ مُهِينٌسے سخت ضعف وذلت آفرین عذاب مراد ہے ۔