وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ
اور (٢) (دیکھو یہ ہماری ہی کار فرمائی ہے کہ) ہم نے تمہیں پیدا کیا (یعنی تمہارا وجود پیدا کیا) پھر تمہاری (یعنی نوع انسانی کی) شکل و صورت بنا دی پھر (وہ وقت آیا کہ) فرشتوں کو حکم دیا آدم کے آگے جھک جاؤ، اس پر سب جھک گئے مگر ابلیس کہ جھکنے والوں میں سے نہ تھا۔
نوع انسانی کی عزت وحرمت : (ف ١) ” خلقنکم “۔ اور ” ثم صورنکم “ میں تمام انسانوں کو مخاطب فرمایا ہے اور اس کے بعد صرف آدم (علیہ السلام) کا ذکر ، اس کے صاف صاف معنی یہ ہیں کہ گو فرشتے آدم (علیہ السلام) کے سامنے جھکے ، مگر مقصود نوع انسانی کا اعزاز تھا ، اور یہ بتانا تھا کہ آدم (علیہ السلام) کی اس عزت افزائی میں تمام بنی آدم (علیہ السلام) شریک وسہیم ہیں یعنی انسان اس درجہ معزز ومفتحز ہے ، کہ کائنات کا حصہ اعلی کھلے بندوں اس کی فضیلت وتمجید کا اعتراف کرتا ہے ۔ شیطان کی نافرمانی کے معنی یہ ہیں کہ جو قومیں تمہارے سامنے نہ جھکیں انہیں مسخر کرنے کی خود کوشش کرو ، آدم (علیہ السلام) اور شیطان کے قصہ کو بار بار مختلف اسالیب میں بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ ایک طرف تو انسان اپنے مرتبہ ومقام کو سمجھے دوسری جانب اسے یہ معلوم ہو ، کہ حق وباطل میں ہمیشہ سے آویزش چلی آتی ہے اور مومن وہ ہے جو بالکل شیطان کی پیروی نہ کرے ۔