سورة البقرة - آیت 89

وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ ۚ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

چنانچہ جب ایسا ہوا کہ اللہ کی طرف سے ان کی ہدایت کے لیے ایک کتاب نازل ہوئی اور وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی تھی جو پہلے سے ان کے پاس موجود ہے تو باوجودیکہ وہ (تورات کی پیشین گوئیوں کی بنا پر اس کے ظہور کے منتظر تھے، اور) کافروں کے مقابلے میں اس کا نام لے کر فتح و نصرت کی دعائیں مانگتے تھے، لیکن جب وہی جانی بوجھی ہوئی بات سامنے آگئی، تو صاف انکار کرگئے، پس ان لوگوں کے لیے جو (جان بوجھ کر) کفر کی راہ اختیار کریں اللہ کی لعنت ہے، (یعنی ایسوں پر فلاح و سعادت کی راہ کبھی نہیں کھلتی)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) نزول قرآن سے پہلے یہودی ایک سرخ وسپید ” نبی کے منتظر تھے ، جس کے ہاتھ میں آتشین شریعت ہو ، بحری ممالک جس کی راہ تکیں ، جو فاران کی چوٹیوں پر سے چمکے ، دس ہزار قدوسی جس کے ساتھ ہوں ، مگر جب وہ گورا چٹا نبی صحرائے عرب کی جھلس دینے والی فضا میں ظہور پذیر ہوا ، جس کے ہاتھ میں آتشین شریعت تھی جس کی فتوحات سمندروں تک پہنچیں تو انہوں نے انکار کردیا ، حالانکہ اس سے پہلے وہ مخالفین سے ہمیشہ یہ کہتے کہ جب ہمارا موعود نبی آئے گا تو ہم غالب ہوجائیں گے اور ہماری موجودہ پستی بلندی سے بدل جائے گی ، قرآن حکیم پہلی کتابوں کا مصدق ہے ، وہ تمام صداقتوں کی تائید کرتا ہے ، تمام سچائیاں اس کے نزدیک قابل قبول ہیں ، مگر اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ وہ باقبل کو حرف بحرف صحیح سمجھتا ہے ، وہ ان مشترک سچائیوں کی تائید وتصدیق کرتا ہے جو مختلف فیہ نہیں ، ورنہ سینکڑوں ایسی باتیں ہیں کہ یہود نے محض بربنائے تعصب بدل دی ہیں ، تاکہ ان کا کوئی وقار قائم نہ رہے ۔